(مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں سیز فائر معاہدے کی مسلسل 81ویں روز بھی سنگین خلاف ورزی جاری رکھی ہے۔ اس دوران توپ خانے کی شدید گولہ باری کی گئی گھروں کو تباہ کیا گیا اور پورے علاقے میں فضائی حملوں کا سلسلہ تیز کر دیا گیا۔ اسی تناظر میں قابض اسرائیل یہ اندازہ بھی لگا رہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور قابض حکومت کے سربراہ بنجمن نیتن یاھو کے درمیان متوقع ملاقات کئی حساس امور پر شدید بحث اور اختلافات کی نذر ہو سکتی ہے۔
غزہ شہر کے مشرقی علاقوں پر توپ خانے سے گولہ باری کی گئی جبکہ جنوبی غزہ میں خان یونس شہر کے مشرقی حصے پر فضائی حملہ کیا گیا۔ اسی طرح قابض فوج کے جنگی طیاروں نے وسطی غزہ میں بریج کیمپ کے مشرقی قبرستان کے اطراف بھی ایک اور فضائی حملہ کیا جو مختلف علاقوں کو لپیٹ میں لینے والے مسلسل جارحیت کا حصہ ہے۔
سیاسی اور انسانی صورتحال میں بگاڑ مسلسل خلاف ورزیوں کے باعث مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ علاقائی اور عالمی سطح پر معاہدے کے دوسرے مرحلے کی طرف بڑھنے کی کوششیں جاری ہیں جبکہ مصر نے ایک بار پھر فلسطینی سرزمین کی وحدت پر اپنے مؤقف کو دہراتے ہوئے کسی بھی ایسے انتظام کو مسترد کیا ہے جو تقسیم کو مضبوط کرے یا زمینی حقائق مسلط کرے۔
غزہ میں انسانی حالات نہایت پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ بنیادی سہولیات شدید طور پر متاثر ہیں اور قابض اسرائیل کی جانب سے ایندھن ،پانی اور تعمیر نو کے سامان کی ترسیل پر مسلسل پابندیاں عائد ہیں جس سے بحران خاص طور پر شمالی غزہ میں شدت اختیار کر گیا ہے جسے بلدیاتی اداروں نے آفت زدہ علاقہ قرار دیا ہے۔
شدید ہواؤں اور موسلا دھار بارشوں پر مشتمل موسمی دباؤ کے باعث بے گھر فلسطینیوں کے متعدد خیمے زیر آب آ گئے جبکہ کئی خیمے اڑ گئے۔ اس صورتحال نے بچوں سمیت متعدد خاندانوں کو کھلے آسمان تلے سرد موسم میں رہنے پر مجبور کر دیا جبکہ خیموں کو مضبوطی سے نصب کرنے کی تمام کوششیں ناکام رہیں۔
اس سے قبل حکومتی میڈیا دفتر نے اعلان کیا تھا کہ قابض فوج نے 10 اکتوبر 2025ء سے سیز فائر کے نفاذ کے بعد سے اتوار 28 دسمبر تک 969 خلاف ورزیاں کیں۔ ان خلاف ورزیوں کے نتیجے میں 418 فلسطینی شہید اور 1141 زخمی ہوئے جیسا کہ غزہ میں حکومتی میڈیا دفتر کے اعداد و شمار میں درج ہے۔
دفتر نے اتوار کے روز جاری بیان میں غزہ کی صورتحال کو سست موت قرار دیتے ہوئے بتایا کہ 80 دنوں کے دوران 298 مرتبہ براہ راست شہریوں پر فائرنگ 54 بار فوجی گاڑیوں کا رہائشی علاقوں میں داخلہ 455 بمباری اور شہریوں اور ان کے گھروں کو نشانہ بنانے کے واقعات 162 گھروں اداروں اور شہری عمارتوں کی مسماری اور 45 غیر قانونی گرفتاریاں ریکارڈ کی گئیں۔
سیاسی سطح پر سیز فائر کے اگلے مرحلے سے متعلق پیچیدگیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ امریکہ اور قابض اسرائیل کے درمیان غزہ کے مستقبل میں ترجیحات پر اختلافات نمایاں ہو رہے ہیں جن میں تعمیر نو اور اسلحہ سے پاک کرنے کے معاملات سرفہرست ہیں۔ یہی فائل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور قابض حکومت کے سربراہ بنجمن نیتن یاھو کی ملاقات کا مرکزی محور ہو گی جو ٹرمپ کے دوبارہ وائٹ ہاؤس آنے کے بعد نیتن یاھو کا واشنگٹن کا چھٹا دورہ ہو گا۔
اسی دوران قابض اسرائیلی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ نیتن یاھو نے رفح کراسنگ کو دونوں سمتوں سے کھولنے پر غور کیا تھا تاہم حکومتی اتحاد کے دباؤ خاص طور پر انتہا پسند وزرا ایتمار بن گویر اور بزلئیل سموٹریچ کی مخالفت کے باعث وہ پیچھے ہٹ گئے۔
اسرائیلی چینل 12 کے مطابق ٹرمپ سے ملاقات سے قبل گذشتہ ہفتے ہونے والے ایک سیاسی اور سکیورٹی اجلاس میں نیتن یاھو نے رفح کراسنگ دونوں سمتوں سے کھولنے کی تجویز پیش کی مگر متعدد جماعتی رہنماؤں کی مخالفت پر اسے واپس لینا پڑا۔ چینل کے مطابق یہ بات اعلیٰ سطحی اسرائیلی حکام نے بتائی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رفح کراسنگ کو دونوں سمتوں سے نہ کھولنا ان وجوہات میں شامل ہے جن کے باعث وائٹ ہاؤس یہ سمجھتا ہے کہ قابض اسرائیل غزہ سیز فائر معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر عمل درآمد میں ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔
قابض حکام نے معاہدے کے دوسرے مرحلے کے مذاکرات کے آغاز کو غزہ میں موجود آخری قیدی کی لاش کی حوالگی سے مشروط کر رکھا ہے جبکہ حماس نے واضح کیا ہے کہ غزہ میں تباہی کی شدت کے باعث لاش نکالنے میں وقت لگ سکتا ہے۔
آج پیر کے روز ہونے والی ٹرمپ نیتن یاھو ملاقات میں بنیادی توجہ امریکہ کی جانب سے غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے کے دوسرے مرحلے لبنان اور شام کے ساتھ کشیدگی اور ایران کی جانب سے اپنے بیلسٹک میزائل نظام کی بحالی سے متعلق قابض اسرائیل کے خدشات پر مرکوز رہے گی۔
قابض اسرائیل کو توقع ہے کہ غزہ میں مجوزہ کثیر القومی فورس میں ترکیہ کی شمولیت اور جنگ کے خاتمے کے دوسرے مرحلے پر ٹرمپ اور نیتن یاھو کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ اس فورس کے لیے ممالک کو آمادہ کرنا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔
اخبار یدیعوت احرونوت کی ویب سائٹ وائنٹ کے مطابق نیتن یاھو کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ غزہ سے متعلق قابض اسرائیل کے مطالبات ٹرمپ کے بیس نکاتی منصوبے سے ہم آہنگ ہیں جسے قابض اسرائیل نے منظور کیا ہے اور اب اصل سوال اس کے عملی نفاذ کا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی استحکامی فورس سے متعلق ایک بنیادی سوال اس کے ارکان کی شناخت ہے۔ ایک سیاسی اور سکیورٹی کابینہ اجلاس میں بتایا گیا کہ امریکہ نے تین ممالک کی رضامندی حاصل کر لی ہے جو غزہ میں فورس بھیجنے پر تیار ہیں۔ امکان ہے کہ نیتن یاھو اس فورس کی تفصیلات ٹرمپ سے سنیں گے اور واضح کریں گے کہ تل ابیب کے نزدیک ترکیہ اور پاکستان اس میں شامل نہیں ہو سکتے۔
مزید یہ کہ نیتن یاھو اس ملاقات میں حماس کے عسکری ونگ کو غیر مسلح کرنے کے دوسرے مرحلے کی تفصیلات اور ٹائم لائن جاننا چاہیں گے۔ رپورٹ کے مطابق اسی نکتے پر اختلاف ہے کیونکہ امریکہ کئی سال کا وقت دینا چاہتا ہے جبکہ قابض اسرائیل چند ماہ میں اس عمل کی تکمیل کا مطالبہ کر رہا ہے۔
وائنٹ کے مطابق قابض اسرائیل کو خدشہ ہے کہ امریکہ غزہ معاہدے کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد آخری قیدی کی واپسی اور حماس کو غیر مسلح کرنے کی حقیقی ضمانتوں کے بغیر مسلط کر سکتا ہے۔
