Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

صیہونیزم

ٹرمپ انتظامیہ کا انروا پر دہشت گرد پابندیوں کا جائزہ

مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

خبر رساں ادارے رائٹرز نے دو باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد اور بحالی کی اقوام متحدہ کی ایجنسی انروا پر دہشت گردی سے متعلق پابندیاں عائد کرنے پر ’’آخری مراحل کی بحث‘‘ میں مصروف ہیں۔ یہ پیش رفت امریکی محکمہ خارجہ کے اندر گہری قانونی اور انسانی تشویش کو جنم دے رہی ہے۔

گذشتہ اپریل میں ٹرمپ انتظامیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ “انروا” اب اس عدالتی استثنیٰ کی حامل نہیں رہی جو اسے پہلے قانونی کارروائیوں سے تحفظ فراہم کرتا تھا۔ یہ دعویٰ امریکی وزارت انصاف کی جانب سے نیویارک کی وفاقی عدالت میں جمع کرائی گئی اس دستاویز میں شامل تھا جو 7 اکتوبر سنہ 2023 کو ہونے والے ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن میں ہلاک ہونے والے قابض اسرائیلیوں کے اہل خانہ کی جانب سے دائر مقدمے سے متعلق تھی۔

اکتوبر سنہ 2024 میں قابض اسرائیل کی پارلیمنٹ کنیسٹ نے بھاری اکثریت سے دو ایسے قوانین کی منظوری دی جن کے تحت انروا کو قابض اسرائیل کے اندر کسی بھی سرگرمی سے روک دیا گیا اور اس کے تمام مراعات و سہولتیں واپس لے لی گئیں، ساتھ ہی اس کے ساتھ کسی سرکاری رابطے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔

جنوری سنہ 2025ء کے آخر میں یہ فیصلہ باضابطہ طور پر نافذ ہوا۔ قابض اسرائیل کا الزام ہے کہ اقوام متحدہ کی اس ایجنسی کے کچھ ملازمین 7 اکتوبر کے حملوں میں شریک تھے۔ تاہم انروا نے ان الزامات کو قطعی طور پر مسترد کر دیا اور اقوام متحدہ نے بھی واضح کیا کہ انروا اپنے غیر جانب دارانہ اصولوں کی مکمل پابندی کرتی ہے۔

بائیس اکتوبر کو عالمی عدالت انصاف نے کہا تھا کہ قابض اسرائیل کے دعووں کی کوئی شہادت موجود نہیں کہ انروا نے غیر جانب داری کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہو۔ ہیگ میں منعقدہ اپنی مشاورتی رائے کی نشست میں عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ قابض اسرائیل یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ ایجنسی کے ملازمین کی کوئی بڑی تعداد حماس یا دیگر فلسطینی دھڑوں سے وابستہ ہے۔

عدالت کے سربراہ یوجی ایواساوا نے کہا کہ عدالت نے اس نتیجے پر پہنچ کر فیصلہ دیا کہ قابض اسرائیل اپنے ان دعوؤں کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکا کہ انروا کے ملازمین کی ایک نمایاں تعداد حماس یا کسی اور تنظیم سے منسلک ہے۔

قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 6 دسمبر کو انروا کے مینڈیٹ میں تین برس کی توسیع کر دی ہے، جو 30 جون سنہ 2029 تک برقرار رہے گی۔ اس قرارداد کے حق میں 151 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ 10 نے مخالفت کی اور 14 ممالک نے ووٹنگ سے اجتناب کیا۔

انروا کے کمشنر جنرل فلیپ لازارینی نے اس فیصلے کو ’’دنیا بھر کی اقوام کی جانب سے فلسطینی پناہ گزینوں کے ساتھ وسیع یکجہتی‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے ایکس پلیٹ فارم پر اپنے بیان میں کہا کہ یہ توسیع عالمی برادری کی اس ذمہ داری کا اعتراف ہے جس کے تحت اسے فلسطینی پناہ گزینوں کی انسانی اور ترقیاتی ضروریات پوری کرنا ہوں گی جب تک ان کے دکھوں کا منصفانہ اور مستقل حل نہیں نکل آتا۔

انہوں نے ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنے ووٹ کو عملی اقدام میں ڈھالیں اور ایجنسی کو اس کے مشن کی تکمیل کے لیے درکار وسائل فراہم کریں۔

انروا غزہ، غرب اردن، لبنان، اردن اور شام میں کام کرتی ہے جہاں وہ فلسطینی پناہ گزینوں کو تعلیم، صحت، سماجی خدمات اور پناہ گاہیں فراہم کرتی ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan