ترکی کے وزیرداخلہ بشیرالاتائی نے کہا ہے کہ وکی لیکس کی عالمی سفارت کاری کے بارے میں افشاء ہونے والی خفیہ رپورٹوں سے سب سے زیادہ فاہدہ اسرائیل کو پہنچا ہے، کیونکہ اسرائیلی قیادت وکی لیکس کے افشاء اور عالمی سفارت کاری کے بے نقاب ہونے سے زیادہ خوش ہے. مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ترک وزیرداخلہ نے ان خیالات کا اظہار جمعہ کو انقرہ میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کیا. جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا وکی لیکس سے کون سے ملک کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا ہے، تو اس پر مسٹر لاتائی نے کہا کہ” وکی لیکس کی رپورٹوں سے مشرق وسطیٰ کے اس ملک کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا ہے جس کا عموما نام نہیں لیاجاتا. وہ ملک اسرائیل ہے اور اسرائیلی سرکردہ لیڈروں کو عالمی سفارتکاری کے خفیہ روابط کے بے نقاب ہونے پر بہت خوشی ہے”. ایک سوال کے جواب میں ترک وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے علاوہ انہیں ایسا کوئی ملک دکھائی نہیں دیتا جو وکی لیکس کی رپورٹوں پر شادیانے بجا رہا ہو ، اگر کسی ملک نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے تو وہ اسرائیل ہے . دوسری جانب حکمران جماعت”جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی” کے نائب صدر حسین جیلیک نے بھی اسی طرح کے خیالات کا ا ظہار کیا ہے. استنبول میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران حسین جیلیک نے کہا کہ “ہمیں یہ تجزیہ کرنا چاہیے کہ آیا وہ کون سا ملک ہے جس نے وکی لیکس کی رپورٹوں پر خوشی کا اظہار کیا اور سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے. میرا خیال ہے وہ ملک صرف اسرائیل ہے، کیونکہ اسرائیل کے سوا دنیا کے کسی ملک کو وکی لیکس کی رپورٹوں اور عالمی سفارت کاری کے افشاء سے فائدہ نہیں پہنچا”. خیال رہے کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان ان دنوں تعلقات نہایت کشیدہ ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بھی منقطع ہیں. تل ابیب اور استنبول کے درمیان تعلقات میں کشیدگی سنہ 2008ء میں غزہ پراسرائیلی حملے کے بعد اس وقت آئی جب ترکی نے اسرائیل کو ایک “جارح ریاست” قراردے کر اس حملے کی شدید مذمت کی. اس سال مئی کے آخر میں یورپ اور ترکی کے امدادی جہازوں کے غزہ جانے والے قافلے پر اسرائیلی فوج نے حملہ کر دیا. حملے میں قابض فوج نے کھلے سمندر میں ترکی کے مرمرہ جہاز میں داخل ہو کر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ترکی کے نو شہری شہید ہو گئے. اس واقعے نے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اور سرد مہری پر جلتی پر تیل کا کام کیا. جس کے بعد ترکی نے اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں.