فلسطینی غیر آئینی صدر محمود عباس کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے لیے پیش کردہ تمام شرائط سے دستبرداری کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو نے ’’بنیادی باتوں‘‘ کے نام سے اپنی شرائط عائد کر دیں۔ انہوں نے مذاکرات کے آغاز سے قبل یہودی ریاست کے اعتراف، سیکیورٹی انتظامات، اور جھگڑا ختم کرنے کے اعلان کو ضروری قرار دیا ہے۔ بنجمن نیتن یاھو نے وزراء کونسل کے ہفتہ وار اجلاس کے دوران کہا کہ فلسطین کے ساتھ امن کا قیام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں، ان کے مطابق اس مقصد کے لیے فلسطینیوں کو حقیقی طور پر اسرائیل کے جانب ہاتھ بڑھانا ہو گا۔ اس موقع پر صہیونی وزیراعظم شمعون پیریز نے ستمبر کے آغاز میں فلسطین کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کا اعلان کیا۔ انہوں نے مذاکرات کے آغاز کو اسرائیل کے لیے ایک نیا باب قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطین کے مابین جھگڑے کا خاتمہ پورے مشرق وسطی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی موقع پر صہیونی ریاست نے مستقبل کی فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں مکمل طور پر اسلحہ پھینکنے کا مطالبہ کیا اور ستمبر کا آغاز ہوتے ہی فی الفور براہ راست مذاکرات کے آغاز کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اسرائیل کے سیاسی ذرائع نے واضح کیا کہ فلسطین کے ساتھ براہ راست کے پہلے مرحلے پر فلسطینی ریاست سے اسلحہ چھوڑ دینے کی بات ہو گی، فلسطین سے بات کی جائے گی کہ اسلحہ صرف پولیس کے پاس ہونا چاہیے، اسی طرح فلسطین کو سہ طرفی امن معاہدے کی ترغیب دی جائے گی۔ دوسری جانب ذرائع نے کہا کہ اسرائیل یہ بھی چاہتا ہے کہ وادی اردن اور اس کی بلند چوٹیاں صہیونی حکام کے زیر تسلط ہی رہیں۔ ذرائع نے کہا کہ عباس حکومت اور اسرائیل کے مابین مذاکرات کے ایجنڈے پر سر فہرست مسائل میں سکیورٹی انتظامات کا مسئلہ بھی ہے۔