فلسطینی اوقاف و مذہبی امور کی وزارت کے زیر انتظام ’’القدس کمیٹی‘‘ نے مشرقی القدس کے گرد اسرائیل کی مجوزہ نسلی دیوار کی تکمیل سے ایک لاکھ سے زائد فلسطین اس مقدس شہر کی شہریت سے محروم ہو جائیں گے۔ اسرائیل اس دیوار کی تعمیر ایک سال کے اندر مکمل کرنا چاہتا ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کو موصول ہونے والے بیان کے مطابق اسرائیل عنقریب نسلی دیوار کی تعمیر مکمل کر لے گا، امسال قلندیا، مغربی شعفاط کے علاقوں میں 20 کلومیٹر دیوار مکمل کر لی جائے گی ، اب تک دیوار کے 200 کلومیٹر کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔ اس دیوار سے القدس کے گرد حلقہ بنا کر اسے مکمل طور پر مغربی کنارے سے جدا کردیا جائے گا۔ اوقاف کا کہنا ہے کہ اگلے ماہ دیوار کی تعمیر کی مزید تعمیر کی منظوری دے دی جائے گی۔ اس دیوار کی تکمیل کے بعد کوئی شخص غیر قانونی طور پر القدس یا مقبوضہ فلسطین کی اراضی میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ القدس میں صہیونی بلدیہ اہالیان القدس کے خدشات کو کم کرنے کی کوشش میں یہ کہ رہی ہے کہ اس دیوار کا مقصد شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے، واضح رہے کہ اس دیوار سے ایک لاکھ فلسطینی القدس سے باہر نکل جائیں گے۔ نسلی دیوار کی وجہ سے القدس کے یہ شہری مختلف قسم کے معاشی اور تعلیمی سہولیات سے بھی محروم ہوجائیں گے۔ کمیٹی نے بتایا کہ دیوار کی وجہ سے القدس سے باہر نکل جانے والے شہریوں کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔واضح رہے کہ القدس کے گرد تعمیر کی جانے والی اس تعمیر کی دوسری جانب سوا لاکھ فلسطینی القدس کی شہریت سے محروم ہونے جائیں گے۔ القدس سے جدا ہونے والی معروف بستیوں اور کالونیوں میں شعفاط کمیپ، راس خمیس، راس شحادہ، کفر عقب اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ واضح رہے کہ 07 جون 1967ء میں مشرقی القدس پر قبضے کے بعد اسرائیلی پارلیمان نے 1980ء میں اسرائیل کے بنیادی قانون کے تحت مشرقی اور مغربی متحد القدس کو یہودی ریاست کا دارالخلافہ قرار دیا۔ اقوام متحدہ کے متعدد قراردادیں اسرائیل کے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے مشرقی القدس اور اس کے اطراف کی بستیوں کو مقبوضہ علاقے قرار دے چکی ہیں۔ تاہم ان سب قراردادوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اسرائیل مسلسل نہ صرف القدس کو یہودی ریاست کا حصہ قرار دیتا رہا بلکہ اپنے قبضے کے بعد سے اس نے اس شہر کی حدود میں توسیع کر کے اطراف کے علاقوں کو بھی نام نہاد یہودی ریاست میں شامل کرنا شروع کر دیا۔ ایک اندازے کے مطابق سنہ 1967ء میں 60 ہزار ایکڑ پر مشتمل یہ شہر اب 170 ہزار ایکڑ پر پھیل چکا ہے۔ اسرائیل نے شہر کو یہودی شناخت دینے کے لیے مختلف نوعیت کی سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں۔ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امتیازی ہاؤسنگ لاء، نئی حدود بندی، نسلی دیوار کی تعمیر، اہالیان القدس کی بے دخلی جیسے منصوبے بنائے گئے ہیں۔ سنہ 2002ء میں اسرائیل نے 770 کلومیٹر دیوار کی تعمیر کا اعلان کیا، جس کا مقصد القدس کو مغربی کنارے سے جدا کرنا ہے۔ اس دیوار کی تکمیل سے القدس کے سوا لاکھ فلسطینی نہ صرف القدس کی شہریت سے محروم ہوں گے بلکہ شہر شدید معاشی مشکلات کا شکار بھی ہو جائے گا۔