Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

غزہ

نارویجن ڈاکٹر: غزہ میں دیکھا گیا ظلم بیان سے باہر ہے

 (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن)

ناروے کی ترک نژاد ڈاکٹر نائل ایکیز نے کہا ہے کہ غزہ میں جو کچھ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ کسی خوفناک فلم سے کم نہیں۔ ان کے بقول وہاں کی انسانی تباہی الفاظ سے ماورا ہے اور یہ مناظر ان کی یادوں میں ہمیشہ نقش رہیں گے۔

ڈاکٹر نائل ایکیز نے یہ بات ترکیہ کی اناطولیہ نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ ستمبر میں خان یونس کے ناصر اسپتال میں ایک نارویجن تنظیم کے تحت کام کیا۔ وہ طویل اور پیچیدہ اجازت ناموں کے بعد چار رکنی میڈیکل ٹیم کے ہمراہ غزہ میں داخل ہو سکیں۔

انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی وہ غزہ میں داخل ہوئیں، ہر طرف تباہی کے مناظر تھے۔ مکانات ملبے کے ڈھیر بن چکے تھے، گاڑیاں برباد تھیں، بچے بھوک سے نڈھال ہو کر گاڑیوں کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور منہ کی طرف اشارے کر رہے تھے۔ کوئی عمارت سلامت نہیں بچی تھی، ہر طرف ویرانی تھی۔

ڈاکٹر ایکیز کے مطابق ناصر اسپتال جس میں صرف 340 بستر ہیں وہاں 800 سے زیادہ مریض موجود تھے۔ بیشتر مریض زمین پر، راہداریوں اور سیڑھیوں پر لیٹے تھے۔ زیادہ تر کے زخم گولیوں، بمباری یا شیلنگ سے تھے۔ دل اور شوگر کے مریض بغیر علاج کے خیموں میں دم توڑ رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ادویات اور طبی سامان کی شدید قلت تھی۔ بے ہوشی کی دوا تک میسر نہیں تھی۔ عام درد کم کرنے والی گولیاں جیسے پیراسٹامول بھی نایاب تھیں۔ آپریشن کے بعد مریض درد سے چیختے تھے اور وہ کچھ نہیں کر پاتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اکثر ہسپتال میں جگہ نہ ہونے کے باعث مریضوں کو خیموں میں واپس بھیجنا پڑتا تھا حالانکہ انہیں مستقل دیکھ بھال کی ضرورت تھی۔

ڈاکٹر نائل ایکیز نے مزید بتایا کہ ایک فلسطینی میڈیکل ایکسپرٹ نے انہیں بتایا کہ شہداء میں تقریباً 30 فیصد بچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “میں نے خود ایک چھ روزہ بچی دیکھی جس کے سینے میں گولی لگی تھی جو پیٹ تک جا پہنچی تھی۔ ہم نے آپریشن کیا مگر وہ بچ نہ سکی۔”

ان کا کہنا تھا کہ اکثر زخمی وہ تھے جو کھانے کے مراکز پر گئے تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے ان جگہوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا۔

ڈاکٹر ایکیز نے بتایا کہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں تین، پانچ اور سات سال کے بچے سر میں زخموں کے ساتھ پڑے تھے، نوجوانوں کے جسم چھلنی تھے۔ کم غذائیت اور انفیکشن کے باعث زخم بھر ہی نہیں رہے تھے اور انہیں بار بار آپریشن کرنا پڑتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر اور نرسیں خود خیموں میں رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر نے بھوک اور تھکن کے باعث 15 سے 20 کلو وزن کم کر لیا ہے۔ وہ پیاسے اور بھوکے ہونے کے باوجود خود کو نمکین پانی کے ٹیکے لگا کر کام جاری رکھتے ہیں۔ بہت سے طبی اہلکاروں نے اپنے اہل خانہ کھو دیے لیکن پھر بھی انسانیت کے جذبے سے خدمت کر رہے ہیں۔

انہوں نے ایک دل دہلا دینے والا واقعہ بیان کیا: “ایک باپ اپنے 12 سالہ بیٹے کو، جو سر پر گولی لگنے سے زخمی تھا، میرے پاس لایا اور التجا کی کہ میں اسے ناروے لے جاؤں تاکہ اس کی جان بچ جائے۔ لیکن چند دن بعد وہ بچہ دم توڑ گیا۔ اس لمحے کا درد الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔”

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا قابض اسرائیل جان بوجھ کر بچوں کو نشانہ بناتا ہے تو انہوں نے کہا، “میں نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر نہیں دیکھا مگر جب ہر تیسرے شہید کی شناخت بچے کے طور پر ہو تو یہ کوئی اتفاق نہیں، یہ عام جنگ نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا قتل عام ہے۔”

ڈاکٹر نائل ایکیز نے کہا کہ وہ آئندہ سال کے آغاز میں دوبارہ غزہ واپس جانا چاہتی ہیں تاکہ وہاں انسانی خدمت کا مشن جاری رکھ سکیں۔ ان کے بقول “ہم پر یہ فرض ہے کہ جو کچھ ہم نے دیکھا ہے اسے دنیا کے سامنے لائیں تاکہ یہ ظلم فراموش نہ ہو۔”

قابض اسرائیل نے سات اکتوبر 2023ء سے امریکی سرپرستی میں غزہ کے خلاف قتل عام، تباہی، قحط اور جبری نقل مکانی کی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ اب تک 68 ہزار 600 سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 70 ہزار زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan