مقبوضہ بیت المقدس سے بے دخلی کی اسرائیلی دھمکی کی زد میں آئے القدس امور کے سابقہ فلسطینی وزیر خالد ابوعرفہ نے کہا ہے کہ القدس سے نکل جانے کے اسرائیلی فیصلے کے باوجود ہم القدس میں رہائش پر مصر ہیں کیونکہ اس بابرکت شہر میں رہنا ہمارا شرعی حق ہے۔ گزشتہ روز اردن کے ایک جریدے ’’الدستور الاردینہ‘‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے متنبہ کیے گئے چاروں فلسطینی اراکین پارلیمان اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور کسی صورت اپنی سرزمین اور شہر کو نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ اسی شہر میں رہیں گے کیونکہ ہم انصاف پر ہیں۔ ہم ثابت قدمی کے ساتھ اپنا ہدف حاصل کر لیں گے۔ ابوعرفہ نے مقبوضہ بیت المقدس کی شیخ جراح کالونی میں ’’ریڈ کراس‘‘ کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے دھرنا دیا اسرائیل کی جانب سے القدس سے بے دخلی کا فیصلہ سنائے گئے احمد عطون اور محمد طوطح بھی ابوعرفہ کے ساتھ تھے، ابوعرفہ نے کہا کہ ’’ہمارے خلاف صہیونی مہم دراصل تمام اراکین پارلیمان، بیت المقدس کے شہریوں اور تمام فلسطینیوں کے خلاف ہے‘‘ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے مختلف اطوار اپنائے ہوئے ہے۔ گھروں کو منہدم کرنا، فلسطینیوں کو شناخت سے محروم کرنا، اسرائیلی فوج کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس تک فلسطینیوں کی رسائی روکنے کے لیے نسلی دیوار کی تعمیر اور اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والوں کو دبانا سب اسرائیلی ناپاک ایجنڈے کے مختلف پروگرام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اس شہر کو یہودیانے، یہاں کے اصل باشندوں کی شہربدری اور اس علاقے کی عرب اور اسلامی شناخت کو ختم کرنے کے لیے انتہائی متعصب انداز میں اپنے پروگرام پر عمل پیرا ہے اس کے ہاں عالمی قوانین کی کوئی وقعت نہیں۔ صہیونی حکام کی جانب سے اس قابضانہ روش کو اختیار کرنے کے اسباب بیان کرتے ہوئے ابوعرفہ نے کہا کہ اسرائیلی حکام سمجھتے ہیں کہ اگلے چند سالوں میں القدس کو یہودیانے کے منصوبے کو انتہائی خطرات لاحق ہونے کا امکان ہے اس لیے انہوں نے ابھی سے القدس کے باسیوں کو اجتماعی ہجرت کرنے پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ سابقہ فلسطینی وزیر نے واضح کیا کہ قابض صہیونی حکام چاہتے ہیں کہ اس شہر میں قائدانہ صلاحیتوں کی حامل کوئی ایسی شخصیت باقی نہ رہے جو اس کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کے باسیوں کو زبردستی ہجرت پر مجبور کرنے اور ظلم کا نشانہ بنانے کے خلاف آواز بلند کر سکے۔ اسرائیل ایسی تمام شخصیات کو القدس سے نکالنا چاہتا ہے، اول مرحلے میں ہمیں یہاں سے نکالنے کے بعد وہ دیگر شخصیات کو بھی یہاں سے نکالے گا، جس پر عرب اور اسلامی دنیا سے کوئی بڑا ردعمل سامنے آنے کا امکان نہیں اس کے بعد وہ یہاں کے شہریوں کو اجتماعی ہجرت پر مجبور کرے گا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس میں یہودیوں کو بسانے کے لیے ایک لاکھ ستاسی ہزار رہائشی یونٹس تعمیر کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ ابوعرفہ کا کہنا تھا کہ اس خوفناک تعداد سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بارہ لاکھ انتہا پسند غاصب یہودی مقبوضہ بیت المقدس میں آ رہے ہیں، ان کا یہ منصوبہ آئندہ دس سالوں پر محیط ہے۔ اس تشویشناک صہیونی منصوبے سے شیخ جراح، بستان، سلوان کالونی اور القدس کی اولڈ میونسپلٹی پر اسراائیلی حملوں اور یہاں کی قیادت کی بے دخلی کی صہیونی کوششوں کی حقیقیت بھی بخوبی عیاں ہو جاتی ہے۔ ابوعرفہ نے کہا کہ ان تمام صہیونی کارروائیوں کا اصل ہدف مقبوضہ بیت المقدس کے شہری اور مسجد اقصی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد اقصی انتہائی خطرناک حالت میں ہے اور مجھے لگتا ہے کہ مسجد اقصی کو یہودیانے کی کوششیں اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں، ایک وقت تھا جب مسجد اقصی میں دسیوں ہزاروں لوگ نماز پڑھنے آتے تھے اور رمضان میں یہ تعداد لاکھوں تک پہنچ جاتی تھی، آجکل یہ تعداد چند ہزار لوگوں تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں لاکھوں یہودی سیاحتی پروگرام کی آڑ میں اس مقدس مسجد میں بلا روک ٹوک داخل ہو رہے ہیں۔