مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
مشرقِ رام اللہ کے قدیم گاؤں الطیبہ کے ایک گوشے میں اپنے پرانے گھر کے بوسیدہ در و دیوار کے درمیان جولیت معّدی چپ چاپ بیٹھی تھی۔ آنکھوں کے کونے بھیگے ہوئے تھے اور دل میں وہ منظر بار بار لوٹ رہا تھا جو اس کے سکون کو ہر روز نوچ لیتا ہے۔ وہ لرزتی ہوئی آواز میں کہتی ہے
انہوں نے ہم سے صرف حمص اور فلافل کی پلیٹ نہیں چھینی تھی، وہ ہماری پوری زندگی ہڑپ کر گئے تھے۔ میری ایک دعا ہے کہ “ہماری سرزمین پر ایک بھی استعماری یہودی باقی نہ رہے”۔
یہ بات کھانے کی نہیں، زندگی کی چوری کی تھی۔ اس زندگی کی جو کبھی سادگی، محبت اور مٹی کی خوشبو سے بھری تھی مگر اب ہر سمت سے پھیلتی سامراجی بستیوں نے اسے گھیر کر دم توڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔
جولیت اپنی میراث کا ذکر کرتی ہے جوباس کا وہ قطعہ زمین جو اس کے آبا و اجداد نے محبت اور محنت سے سینچا تھا۔ پچھتر رومی زیتون کے درخت جن میں سے کچھ نے صدیوں کے موسم دیکھے تھے۔
مگر وہ اب ان درختوں تک پہنچ بھی نہیں سکتی۔ وہ آہ بھرتے ہوئے کہتی ہے “دو سال ہو گئے ہیں، انہوں نے زمین پر قبضہ جما لیا۔ زیتون چننے تک نہیں جانے دیتے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کے مویشی ہمارے زیتون کے درخت چبا رہے تھے اور ہم ہم اپیے ہی مٹی کو چھونے تک سے محروم کردیئے گئے”۔
یہ صرف جولیت کا دکھ نہیں۔ مغربی کنارے کے کھیتوں میں، گاؤں گاؤں وہی چیخیں، وہی محرومیاں، وہی زخم دوہرائے جا رہے ہیں۔
گذشتہ برسوں میں استعماری آبادکاروں کے حملوں کی یلغار بڑھ گئی ۔ زیتون کے باغات نذر آتش، فصلیں چرائی گئیں، زمینیں بلڈوز کی گئیں، کنویں توڑے گئے، گھروں پر حملے کیے گئے اور یہ سب قابض اسرائیل کی فوج کے پہرے میں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے صرف گذشتہ موسمِ زیتون میں ایک سو اسی سے زیادہ حملے ریکارڈ کیے، جن میں کئی فلسطینی خاندانوں کی پوری فصلیں لوٹ لی گئیں۔
جولیت جووطن کی مٹی سے عشق کرنے والی عورت ہے اپنے ہاتھوں کو فضا میں یوں حرکت دیتی ہے جیسے وہ اپنی زمین کی خوشبو چن رہی ہو
میں اس زمین کو کتنا چاہتی ہوں؟ میں ہل چلانے والے کے پیچھے صرف اس لیے جاتی تھی کہ مٹی کی خوشبو سانسوں میں محسوس کر سکوں۔ وہ خوشبو، وہ خوشبو زندگی تھی، عمر تھی، دھڑکن تھی۔
وہ انگور کے خوشبودار موسم، کھیرے، کدو، بھنڈی اور سبزیوں کے دن یاد کرتی ہے۔ ہم ہر چیز اپنی زمین سے کھاتے تھے۔ آج ہمارے پاس صرف حسرت باقی ہے۔
لیکن جولیت کا سب سے بڑا درد صرف زمین نہیں۔ اس کا خوف ہے کہ کہیں زندگی کی آخری سانس بھی اس سے چھین نہ لی جائے۔
وہ کہتی ہے کہ میرا گھر میرے لیے پوری دنیا ہے۔ میری یہی خواہش ہے کہ میں اسی گھر میں جیوں اور اسی میں مروں۔ میں نہیں چاہتی کہ ایک دن آنکھ کھلے اور دیکھوں کہ وہ اسے بھی چھین کر لے گئے۔
وہ چند لمحے رکتی ہے، اپنے بچھڑنے والے بھائیوں کو یاد کرتے ہوئے میرے بھائی وطن سے دور مر گئے… اور میں ڈرتی ہوں کہ میں اپنی زمین کو اپنی نظروں کے سامنے بکھرتے دیکھتے ہوئے نہ مر جاؤں۔
ایک اور دکھ بھری مگر ولولہ انگیز کہانی
قریب ہی واقع گاؤں کفر مالک میں صبحیہ کامل کی داستان بھی جولیت جتنی ہی زخمی اور اتنی ہی مزاحمت سے روشن ہے۔
وہ اپنی اونی چادر کو تھامے، لرزتے لہجے میں کہتی ہے۔انہوں نے ہماری بکریاں چرائیں، زمین لے لی، زیتون کے مالکان کو بھگا کر خود زیتون توڑنے لگے۔ انہوں نے ہمارے رواج، ہمارے طور طریقے، ہماری نسلوں کی محنت سب چھین لیا۔
صبحیہ بھی ان خواتین میں شامل تھی جو زراعت کے ہر کام میں شریک ہوتی تھیں، فصل کاٹنے سے لے کر جانوروں کے لیے چارہ تیار کرنے تک۔
وہ بتاتی ہے کہ ہماری زندگی خیر سے بھری تھی۔ موسم زیتون میں زیتون ہوتا، گرمیوں میں ہم زعتر، بابونج، مےرامیہ اگاتے۔ زندگی خوشحال تھی۔
مگر پچھلے برسوں میں مغربی کنارہ تیزی سے بدل گیا۔ استعماری آبادکاروں کے حملے بڑھ گئے، نوجوان گرفتار کیے جا رہے ہیں اور قابض اسرائیل کی چوکیاں گاؤں گاؤں راستے کاٹ رہی ہیں۔
عالمی رپورٹوں کے مطابق مغربی کنارہ آج سن دو ہزار چھ کے بعد سے سب سے شدید استعماری تشدد کا شکار ہے۔ درجنوں فلسطینی گاؤں مسلح استعماری چوکیوں کے باعث نیم محصور علاقے بن چکے ہیں۔
صبحیہ دکھ سے سر ہلا کر کہتی ہے کہ ہم زندہ رہتے تھے، خوش رہتے تھے… مگر آج کوئی خوش نہیں۔ نہ دل کو قرار ہے نہ روح کو سکون۔
پھر وہ اپنے ٹیلے پر بنے گھر سے نیچے دیکھتی ہے، وہاں جہاں اس کی زمین تھی… اب نئی بستیاں ہیں۔
وہ آہ بھر کر کہتی ہے یہ زمین ہماری ہے۔ قدیم ہے۔ پیاری ہے۔ خدا کی قسم ہم اسے چھوڑیں گے نہیں۔ یہاں مریں گے مگر اسے انہیں نہیں دیں گے۔
یہ دو عورتیں صرف دو کہانیاں نہیں، یہ پورے فلسطین کی آواز ہیں۔ زمین کے چھن جانے کا درد، یادوں کے مٹنے کا خوف اور زندگی کی ہر جڑ کو اکھاڑ دینے کی کوشش کے خلاف روز کی جنگ لیکن اس سب کے باوجود گھر اور زمین سے محبت وہ آخری مورچہ ہے جسے فلسطینی خواتین ہر دن ثابت قدمی سے تھامے ہوئے ہیں۔
وہ تب تک لڑیں گی جب تک آخری سانس باقی ہے۔