Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Uncategorized

مغربی کنارے میں تعلیم کی ابتر صورتحال ۔ ۔ ۔ ۔ ہم کہاں جا رہے ہیں؟

palestine_foundation_pakistan_palestinian-school-iof-attack

کسی بھی معاشرے کی تعلیمی سطح اس کے افراد کی آگاہی، زندہ دلی، مقصد سے لگاؤ اور ثابت قدمی کے عناصر کی فراوانی کو جانچنے کا ایک بڑا مضبوط اشاریہ ہوتی ہے۔ تعلیم سے میرا مقصد محض علم نہیں بلکہ پورا تعلیمی نظام ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں عالم عرب میں بالعموم اور فلسطین میں بالخصوص تعلیم کا شعبہ انتہائی زوال کا شکار ہے۔ بہت سے ملکی اور عالمی ماہرین تعلیم اس بحران کے مختلف اسباب بھی بیان کر چکے ہیں۔
عرب دنیا سے قطع نظر اگر فلسطین میں تعلیم کی روز افزوں گرتی شرح پر نظر ڈالی جائے تو یہاں کے تعلیمی عمل کو اسرائیلی قبضے کی تند و تیز آندھیوں کا سامنا ہے۔ دو انتفاضوں کے بعد تو اسرائیل نے باقاعدہ یونیورسٹیاں اور کالجز بند کرنے کی مہم چلا رکھی ہے یوں ان یونیورسٹیوں اور سکولوں کا نظام انتہائی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ متعدد اساتذہ اور سیکڑوں طلبہ انتہائی نامساعد حالات میں کام کر رہے ہیں۔ یوں فلسطین میں تعلیمی شعبہ عمل روبہ زوال ہے، اس سب کے ساتھ اسرائیلی فوجیوں کی بربریت بھی جاری رہتی ہے، آئے روز کی اسرائیلی فوج اور اس کے عسکری حلیفوں کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کو زخموں ،شہادت اور گرفتاریوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دیگر دنیا کے برعکس فلسطینیوں کو درپیش ان اضافی اور خصوصی مشکلات کی بنا پر یہاں دیگر کئی شعبوں کی طرح تعلیمی میدان میں بھی پیشہ وارانہ عوامل کے ساتھ جذباتی عوامل بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ پس کسی یونیورسٹی یا سکول میں اساتذہ کی بھرتی کی درخواستیں قبول کرتے وقت اسیران یا شہداء کے عزیز و اقارب کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح سرکاری تعیناتیوں کے موقع پر بھی خاص طور پر شعبہ تعلیم میں شہید یا اسیر کی اقارب پر خصوصی نظر التفات ہونا کوئی راز نہیں۔ شہداء و اسیران کے رشتہ داروں پر یہ نوازش اہلیت، تعلیم اور تجربے کی قیمت پر کی جاتی ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسیر فلسطینیوں نے اپنی جوانی کے قیمتی لمحات جیلوں کے سلاخوں کے پیچھے گزارے دیے، یہ سب انہوں نے اپنی اور اپنی قوم کی عزت اور آزادی کے لیے کیا ہے اسی طرح شہید اور اسکے اہل خانہ کے اکرام کو کون نظر انداز کر سکتا ہے۔ شہداء اور ان کے ورثاء کی عزت افزائی ایک فریضہ قومی ہے، ان کی عزت آخر کیوں نہیں کی جائے گی؟ انہوں نے اپنی جان اور اپنا مال اپنے وطن اپنی امت کے لیے قربان کر دیا، انہوں نے جان تو دے دی مگر اپنی قوم اور اپنے مقدس مقامات کی عزت میں اضافہ کیا انہوں نے اپنی سرزمین اور آزادی کی جستجو میں اپنی جان تک کا نذرانہ پیش کر دیا۔
ہم اسیران اور انکے خاندانوں کی مکمل تکریم، شہداء اور ان کے اہل خانہ پر جان بھی نچھاور کرتے ہیں لیکن اس سب کے لیے استاد کی قابلیت اور تعلیمی کوائف پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، اگر استاد اور معلم کی سیٹ کے لیے کسی شہید کا بیٹا یا بیٹی، بھائی یا بہن یا اس کی بیوی کی درخواست آ جائے تو انہیں اس انتہائی پرخطر اور حساس نوکری پر تعینات کرنے کے لیے اس شہادت کی توجیہ نہیں پیش کی جا سکتی۔ تعلیم کے شعبے میں کام کرنے کے لیے علم، تجربہ اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ شعبہ سب سے زیادہ خطرناک شعبہ ہے کیونکہ انسان سازی اور آئندہ نسلوں کی تیاری کی صنعت سب سے زیادہ مشکل، پیچیدہ، خطرناک اور اہم ترین صنعت ہے۔ اس میں کسی غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ فلسطین کے سکولوں میں تعلیمی نتائج اور تعلیمی معیار کئی اسباب کی وجہ گرتا جا رہا ہے، لیکن یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ تعلیمی انحطاط کے اسباب میں سے اہم سبب کا تعلق معلم اور اسکی کارکردگی سے ہوتا ہے۔
محکمہ تعلیم میں بھرتیاں کرتے ہوئے انسانی تعصب تو سمجھ میں آتا ہے، اس سب کے باوجود ہم شہداء یا اسیران کے رشتہ داروں کے معاملے میں قومی اقدار اور ان کی مدد کی حمایت کرتے ہیں مگر صرف علم، قابلیت، تجربے اور تربیت کے قابل قبول حد تک، لیکن جو چیز سمجھ سے بالاتر ہے وہ مغربی کنارے میں اپنے ہی ہاتھوں سے تعلیمی عمل کو ذبح کیا جانے والا عمل ہے۔ تعلیمی شعبے پر روا رکھا جانے والا ظلم کسی بھی باشعور، محب وطن اور بااخلاق فرد کی نظروں سے محو نہیں رہ سکتا۔

اپنے دعوے کے لیے ہمارے پاس دلائل بھی موجود ہیں
(1) ۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ سیکڑوں ماہر، تجربہ کار، مخلص، وفادار اور قابل اساتذہ کو ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا، یہ وہ اساتذہ تھے جن کی کامیابیاں اور ترقیاں ان کی اہلیت کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔ ان برطرفیوں نے اچھے برے سب اساتذہ کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ ناجائز طور پر ملازمتوں سے برخواست کرنے کی یہ توجیہ پیش نہیں کی جا سکتی کہ فلسطین کی تقسیم کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا۔ ہماری نظر میں یہ کوئی سبب نہیں ہے، سارا تعلیمی نظام ایک بے مقصد اور نامعلوم راستے کی جانب گامزن ہے اس نظام کے نقصانات کا نشانہ آخر میں طالب علم اور اساتذہ ہی بنتے ہیں اور ذبح ہونے والا تعلیمی عمل ہے اور سارا خسارا قوم کے کھاتے میں آتا ہے۔ پھر ان اساتذہ کا تقسیم سے کیا تعلق ہے جن کا اس تقسیم میں کوئی عمل دخل ہی نہیں۔
(2) ۔ تعلیمی شعبے میں بھرتی کے لیے سیکڑوں گریجویٹس کی درخواستیں سیاسی اختلافات کی وجہ سے رد کر دی گئیں۔ وہ شخص جس کا حکومت مخالف سیاسی نظریات سے ذرہ بھر بھی کوئی تعلق تھا اسے مردود قرار دے دیا گیا۔ حتی کہ وہ شخص جس کی سلطان مخالف سیاسی نظریہ رکھنے والے سے کوئی رشتہ داری تھی وہ بھی زیر عتاب آ گیا۔
(3) ۔ تعلیمی شعبے میں ساری بھرتیاں ایک پارٹی کی بنیاد پر کی گئیں جن میں اہلیت، قابلیت اور تعلیمی کوائف کو بالکلیہ نظر انداز کر دیا گیا۔ تعلیم کے ایک ڈائریکٹر، جو خود بھی کوالیفکیشن کے معیار کے بجائے اقربا پروری کی بنیاد پر اس عہدے تک پہنچے ہیں، کا کہنا ہے ’’فتح سے تعلق رکھنے والا چاہے وہ فیل بھی ہو جائے منتخب ہے اور حماس سے تعلق رکھنے والے کا نتیجہ کیسا ہی شاندار ہو مسترد کر دیا جاتا ہے۔‘‘ یہ صرف ایک شخص کا قول نہیں بلکہ مغربی کنارے میں وزارت تعلیم کی پالیسی ہے۔ قانون کی اس کھلی خلاف ورزی اور اس امتیازی سلوک کی بابت سوال کے جواب میں محکمہ تعلیم کے ایک بڑے عہدیدار کا کہنا تھا ’’مصری دستاویز پر دستخط کر کے فلسطینی مصالحت پر عملدرآمد کرو‘‘
(4) ۔ سٹاف کو نام نہاد’’ امن وسلامتی‘‘ فراہم کرنے کے نام پر مخصوص یونیورسٹیوں اور سکولوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے اور انہیں نسلی تطہیر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ غرض مغربی کنارے میں تعلیم کے شعبے میں تمام فلاحی، خیراتی کاموں کو تباہ کرنے اور خون خرابے کو عام کرنے کی پالیسی پر چلا جا رہا ہے۔
5) ۔ تعلیم سے بھاگنے والوں کے لیے سیکیورٹی فورسز میں نوکریوں میں حوصلہ افزائی اور سیکنڈری سکول سرٹفکیٹ کے حامل کامیاب طلبہ کو اس شعبے میں داخل ہونے سے روکنے سے بھی فتح حکومت کی جہالت پھیلانے کی پالیسی کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔
آخر کب تک تعلیم فوج کے ہاتھوں میں یرغمال رہے گی؟ اور کب تک تعلیم اور اس کے اسرار و رموز کے ماہر خاموشی اختیار کیے رکھیں گے ؟ کب تک وزارت تعلیم مجبور رہے گی اور حکمرانوں کی خواہشات کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہیگی؟ ان کے لیے دو ہی راستے ہیں یا تو ہدایات کے مطابق کام کرتے رہیں یا نام نہاد ’’اہل حکمرانوں‘‘ کے سامنے اٹھ کھڑے ہوں۔
جنگ عظیم دوم میں فتح حاصل کرنے کے بعد عوام کی بڑی تعداد فاتح جنرل کے پاس آئی لوگوں نے جنرل کی عزت و تکریم کرنا چاہی، جس پر اس جنرل نے ایک تاریخی جملہ کہا ’’ میری عزت نہ کرو بلکہ اس استاد کی تکریم کرو جس نے فتح حاصل کرنے والی نسل تیار کی‘‘
اس تاریخی قول کے برعکس ہم نے اپنی تمام علمی صلاحیتوں کو ضائع کردیا اور اپنے مدارس کو کامیاب معلمین سے محروم کر دیا، ہمارے طلبہ کئی کئی ماہ مدرس کے بغیر ہی رہے کیونکہ ان کے برطرف اساتذہ پر تو زندگی ہی تنگ کردی گئی تھی۔
مجھے یہ تصور کر کے بڑی شرمندگی محسوس ہو رہی کہ ہمارے موجودہ دور کی تاریخ رقم کی جائے گی تو اس میں کیا لکھا جائے گا؟ یہ وہ ہی قوم ہے جس کی علمی شخصیات نے عالم عرب میں طویل عرصے تک اپنے علم و فضل کا لوہا منوایا تھا۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan