اسرائیل کے معروف تجزیہ نگار اور مصنف ڈانی روبنچائن نے کہا ہے کہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی کا مقصد وہاں سے اسلامی تحریک مزاحمت –حماس- کی حکومت کو ختم کرتے ہوئے محمود عباس کی جماعت کا اقتدار بحال کرنا تھا تاہم اسرائیل اپنی اس پالیسی میں مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے۔
عبرانی اخبار”یدیعوت احرونوت” میں شائع مضمون میں ڈانی ربنچائن کا کہنا ہے کہ” یہ بات بہت پہلے ہی واضح ہو گئی تھی کہ اسرائیل نہ تو طاقت کے زور پرغزہ سے حماس کا اقتدار ختم کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کے لیے معاشی ناکہ بندی کی پالیسی سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔
اسرائیل کی کوشش تھی کہ وہ فوجی طاقت کے بل بوتے پرحماس کا اقتدار ختم کر کے محمود عباس اور ان کی جماعت کی حکومت بحال کریں گے تاہم اسرائیل اپنے فوجی ٹینک پرمحمود عباس کو بٹھا کر غزہ لے جا سکا اور نہ ہی اس کی معاشی ناکہ بندی کی حکمت عملی کامیاب ہو سکی ہے، المیہ یہ ہے کہ اسرائیل اب بھی معاشی ناکہ بندی ہی کو حماس کے اقتدار کے خاتمے اور محمود عباس کے حکمرانی کی بحالی کا آخری ذریعہ سمجتھا ہے۔”
صہیونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اسرئیل اور مغرب مغربی کنارے میں اقتصادی صورت حال بہتر کرنے پر توجہ دے رہے ہیں تاکہ غزہ کےشہریوں کو یہ باور کریا جا سکے کہ جب تک غزہ پر محمود عباس کی حکومت قائم نہیں ہوتی اقتصادی حالات بہتر نہیں ہو سکتے، یوں اس کے نتیجے میں غزہ کے شہریوں کو حماس کے خلاف بغاوت پر ابھارتے ہوئے محمود عباس کے اقتدار کی راہ ہموار کرنا ہے۔\
انہوں نے مزید کہا کہ صہیونی میڈیا میں حماس کی اقتصادی کمزوری کی خبریں مبالغے پر مبنی ہیں، اگر ایسا ہوتا تو اسرائیل کی غزہ پر معاشی ناکہ بندی کی حکمت عملی کامیاب ہو جاتی۔