فلسطینی انتظامیہ کے صدرمحمود عباس نے اسلامی تحریک مزاحمت – حماس کے ساتھ مصالحت کو عرب امن تجاویز اور اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے سے مشروط کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ حماس خطے میں قیام امن کے لئے امریکی نقشہ راہ کی حمایت کرے۔ نیز مصالحت کی منزل تک پہنچنے کے لئے حماس مزاحمت کو خیرباد کہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ” فلسطینی ریاست کا قیام اور قتل، میرے ہاں ایسے امور ہیں کہ جن پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا ۔” عبرانی روزنامے ہارٹز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے محمود عباس نے فلسطینیوں کی جانب سے 1947 ء میں تقسیم فلسطین کے منصوبے کو مسترد کرنے پر افسوس کا اظہار کیا۔ فلسطینیوں نے ایسا کر کے قیمتی موقع ہاتھ سے گنوا دیا۔ انہوں نے اسرائیلیوں پر زور دیا کہ وہ بھی اس وقت عرب امن منصوبے کو مسترد کر کے امن کا موقع ہاتھ سے گنوائیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کی صفوں میں انتشار کے باوجود اسرائیل سے “امن معاہدہ” کرنا ممکن ہے۔ ہم اس مسئلے پر فلسطینی عوام سے ریفرنڈم کے ذریعے رائے لینے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہودیوں کو مخاطب کرکے میں ان سے پرامن عوامی حمایت حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اس اپروچ کے ذریعے رام اللہ اتھارٹی یہودیوں تک اپنا نقطہ نظر پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ 1967 ء کی حدود میں فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو فلسطینیوں کی بات پر کان نہیں دھرتے ہیں۔ انہوں نے مغربی کنارے میں بین الاقوامی فوج تعینات کرنے کی تجویر سے فلسطینیوں آگاہ نہیں کیا۔ وہ اس تجویز کو مغربی کنارے، غزہ اور القدس میں فلسطینی ریاست کے قیام کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اپنے انٹرویو میں محمود عباس نے اسرائیل کو متعدد تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان پر عمل درآمد سے ہم بالواسطہ مذاکرات کے بجائے بلواسطہ مذاکرات کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ ابو مازن کا کہنا تھا کہ اگر دونوں فریق ایسا نہ کر سکے تو امن کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ اسرائیل 1967 ء کی سرحدوں میں غزہ، مغربی کنارے، مشرقی بیت المقدس، بحر مردار اور غور الاردن میں فلسطینی ریاست قائم کرے۔ سرحدوں میں تبدیلی ون ٹو ون کے اصول پر کی جائے۔ نیز اس مقصد کے لئے ایہود اولمرٹ سے طے والے پانے والا معاہدہ بھی رہ نما اصول بنایا جانا چاہئے۔