Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

صیہونیزم

مشرقی بحیرہ روم میں اسرائیل کی خفیہ سازش، ترکیہ کا اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش

مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

قابض اسرائیل کے ایک میڈیا رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تل ابیب میں سیاسی قیادت نے فوجی قیادت کو آگاہ کیا ہے کہ یونان اور قبرص کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ انٹرفورس فورس کے قیام کے خیال کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جا رہا ہے، جبکہ اس منصوبے کے لیے ابتدائی منصوبہ بندی شروع کرنے کی ہدایت دی گئی ہے تاہم اس مرحلے پر کسی عملی اقدام کی طرف پیش قدمی نہیں کی جا رہی۔

قابض اسرائیلی عبرانی اخبار”یدیعوت احرونوت” کے مطابق یہ پیش رفت یونان کے دارالحکومت ایتھنز اور قبرص کے شہر نیکوسیا کے ساتھ قابض اسرائیل کے فوجی تعاون کو مضبوط بنانے کے تناظر میں سامنے آئی ہے، اگرچہ قابض اسرائیلی حکام نے یونانی میڈیا کی ان خبروں کی سرکاری سطح پر تردید کی ہے جن میں اس فورس کے جلد قیام کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ موجودہ تعاون میں فضائی، بری اور بحری مشترکہ فوجی مشقیں شامل ہیں جو ایک پھیلتی ہوئی علاقائی شراکت داری کا حصہ ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قابض فوج براہ راست وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو اور وزیر دفاع یسرائیل کاٹز کی ہدایات کی منتظر ہے، جبکہ سیاسی قیادت نے حساس نوعیت اور علاقائی اثرات کے پیش نظر فی الوقت منصوبہ بندی کی حد سے آگے نہ بڑھنے کا حکم دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق قابض اسرائیل کی جانب سے محتاط رویے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر ایسی کسی مشترکہ مداخلتی فورس کا قیام عمل میں آتا ہے تو اس کا اصل ہدف مشرقی بحیرہ روم میں ترکیہ کا سامنا کرنا ہوگا، بالخصوص قابض اسرائیل، یونان اور قبرص کے نام نہاد مفادات اور معاشی سمندری حدود کے تحفظ کے نام پر، جس میں مصر بھی شامل ہے۔

ان معاملات میں گیس اور تیل کی نکاسی، ماہی گیری کے حقوق، ترکیہ کے دعوؤں سے جڑے تنازعات اور وہ گیس پائپ لائن منصوبہ شامل ہے جسے قابض اسرائیل یورپ تک بچھانا چاہتا ہے اور جس کی انقرہ مخالفت کرتا ہے، اس کے علاوہ یونان اور ترکیہ کے درمیان بحیرہ ایجیئن کے جزیروں پر خودمختاری کا پرانا تنازع بھی اس کشیدگی کا حصہ ہے۔

رپورٹ میں اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اگرچہ ترکیہ اور یونان دونوں نیٹو کے رکن ہیں، تاہم انقرہ اور ایتھنز کے درمیان دشمنی بدستور قائم ہے، جبکہ قبرص کا مسئلہ اس تصادم کی سب سے نمایاں علامت بنا ہوا ہے۔

فوجی بجٹ کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترکیہ کی بری اور بحری افواج حجم اور جدیدیت کے اعتبار سے برتری رکھتی ہیں اور ترکیہ کی عسکری صنعت نمایاں ترقی کر چکی ہے، جبکہ ترک فضائیہ کو نسبتاً کم برتری حاصل ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہی پہلو قابض اسرائیل کے ممکنہ کردار کو اہم بناتا ہے، کیونکہ وہ اپنی فضائی اور انٹیلی جنس صلاحیتوں کے ذریعے توازن بدل سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگر قابض اسرائیل اس نوعیت کی شراکت داری میں شامل ہوتا ہے تو مشرقی بحیرہ روم میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے اور ترکیہ کے صدر طیب ایردوآن کو یونان کے ساتھ کسی بھی ممکنہ تصادم سے قبل اپنی حکمت عملی پر ازسرنو غور کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

یدیعوت احرونوت کے مطابق قابض اسرائیل کے عزائم صرف مشرقی بحیرہ روم تک محدود نہیں بلکہ تل ابیب ترکیہ کے خلاف ایک دباؤ کارڈ بھی تیار کرنا چاہتا ہے، خاص طور پر ان خدشات کے پیش نظر کہ ایردوآن قابض اسرائیل کی سرحدوں کے آس پاس ترکیہ کی عسکری موجودگی کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بین الاقوامی استحکام فورس

اسی تناظر میں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد انقرہ نے شام میں اپنے عسکری اور سیاسی اثر و رسوخ کو وسعت دینے کے لیے سرگرمیاں تیز کر دی ہیں، جن میں ابتدائی وارننگ ریڈارز اور فضائی دفاعی بیٹریوں کی تنصیب بھی شامل ہے، جو قابض اسرائیلی فضائی نقل و حرکت کی آزادی کو محدود کر سکتی ہیں۔

قابض اسرائیل نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ غزہ میں سیز فائر کے لیے امریکہ کی سرپرستی میں زیر غور منصوبے کے تحت مجوزہ بین الاقوامی استحکام فورس میں ترکیہ کی شمولیت اس کی عسکری کارروائیوں کی صلاحیت کو محدود کر سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق تل ابیب کو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ اگر ترکیہ کی ایک فورس، جس کی تعداد ایک ہزار یا اس سے زائد فوجیوں پر مشتمل ہو سکتی ہے، اس مشن میں شامل ہوئی تو اس سے غزہ میں اسلحہ اور عسکری ساز و سامان کی اسمگلنگ کے امکانات بڑھ سکتے ہیں، بالخصوص اس پس منظر میں کہ ایردوآن کھلے عام حماس کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

رپورٹ کے آخر میں کہا گیا ہے کہ یونان اور قبرص کے ساتھ مشترکہ مداخلتی فورس کے تصور کو اچھالنا دراصل ترکیہ کے لیے ایک سیاسی اور عسکری دھمکی ہے، نہ کہ فوری طور پر کسی براہ راست محاذ آرائی کی عملی تیاری۔

رپورٹ نے واضح کیا ہے کہ یہ خیال تاحال قابض اسرائیلی وزارت دفاع میں محض نظریاتی منصوبہ بندی کے دائرے میں ہے اور اس حوالے سے سامنے آنے والی خبریں اور اشارے، خاص طور پر یونانی میڈیا میں، دراصل ترکیہ کو اس ممکنہ منظرنامے کو سنجیدگی سے لینے اور اپنی علاقائی پالیسیوں پر نظرثانی پر مجبور کرنے کی کوشش ہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan