القدس کے علاقوں بیت حنینا اور حزمی کے اراضی پر نئی یہودی بستی بسانے کے لیے 625 نئے رہائشی یونٹس تعمیر کرنے کے ایک منصوبے کا انکشاف ہوا ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینیوں کی زیر نگرانی کام کرنے والے اورئینٹ ہاؤس کی عرب سٹڈی سوسائٹیز میں کام کرنے والے فلسطینی ماہر امور آثار قدیمہ خلیل تفکجی نے بتایا کہ اس منصوبے کا مقصد پرانی یہودی بستی میں توسیع ہے اور انہوں نے کا کہ اس تعمیراتی منصوبے کی تکمیل کے بعد یہودی آباد کاروں کی سہولت کے لیے 300 ایکڑ اراضی پر ایک ٹیکنالوجی پارک بھی قائم کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ القدس کو یہودیانے کے حالیہ تمام منصوبے القدس کو ترجیح دینے، اسے صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے اور یہاں سے انخلاء کے لیے عوامی رائے شماری کے فیصلوں کے بعد عمل میں آ رہے ہیں۔
صہیونی وزارت مواصلات کی جانب سے مقبوضہ فلسطین اور مغربی کنارے کے شمالی یہودی بستیوں کو ملانے کے لیے ریلوے کے منصوبے پر بات چیت کرتے ہوئے تفکجی نے کہا ’’یہ منصوبہ سارے فلسطین کو شامل ہے جس سے تل ابیب کو مغربی کنارے کی یہودی بستیوں سے ملا دیا جائے گا، اس ریلوے منصوبے کے آغاز سے اسرائیل کے تین اہداف ہیں، سب سے پہلے تو اس کے ذریعے یہودی بستیوں کو ساحلی علاقوں میں قائم فوجی اڈے سے ملحق کرنا ہے جس کے بعد یہودی بستیوں کی سکیورٹی اور یہاں کے یہودیوں کو روزگار بھی ملے گا۔
دوسرا ہدف مغربی کنارے کے شمالی علاقوں کی جنوبی علاقوں سے علیحدگی اور تیسرے نمبر پر اسرائیل مغربی کنارے اور اردن کے درمیان واقع وادی اردن سے فلسطینیوں کا انخلا کر کے اس وادی پر قبضہ بھی کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے اپنے پچھلے منصوبوں پر عمل کرتے ہوئے اس وادی پر عملی قبضے کا آغاز کر دیا ہے اس نے اس زرعی ٹکڑے کو ساحلی علاقوں سے ملانے پر کام شروع کر دیا ہے۔