نیویارک ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
امریکی شہر نیویارک میں ڈیموکریٹک امیدوار زهران ممدانی نے تاریخی کامیابی حاصل کرتے ہوئے میئر کا عہدہ جیت لیا۔ ان کی یہ شاندار فتح قابض اسرائیل کے حامی صہیونی لابی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک سخت سیاسی دھچکا قرار دی جا رہی ہے۔
زهران ممدانی نے اپنی جیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ جلد ہی باضابطہ طور پر نیویارک کے میئر کا حلف اٹھائیں گے۔ جذبات سے لبریز ہجوم سے خطاب میں انہوں نے کہا “آپ نے مجھے تبدیلی کے لیے، ایک نئی سیاست کے لیے مینڈیٹ دیا ہے۔ میں عہد کرتا ہوں کہ نیویارک کو ایک بہتر، منصفانہ اور متحد شہر بناؤں گا”۔
انہوں نے اپنے خطاب میں شہر کے تمام محنت کشوں، مختلف قومیتوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے امید اور انصاف کے پیغام پر اعتماد کیا۔
ووٹرز کے ابتدائی جائزوں کے مطابق 34 سالہ ڈیموکریٹک امیدوار زهران ممدانی نے اپنے ری پبلکن حریف کرٹس سلیوا اور سابق گورنر و آزاد امیدوار اینڈریو کومو پر نمایاں برتری حاصل کی۔
اس کامیابی کے ساتھ زهران ممدانی امریکہ کے سب سے بڑے شہر نیویارک کے پہلے مسلمان میئر بن گئے ہیں، جو یکم جنوری سنہ2026ء کو اپنے منصب کا حلف اٹھائیں گے۔
ابتدائی نتائج کے مطابق ممدانی نے 50.4 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے ری پبلکن حریف کو صرف 41.3 فیصد ووٹ ملے۔ ممدانی کو اپنے مخالف پر ایک لاکھ سے زائد ووٹوں کی سبقت حاصل رہی۔
زهران ممدانی کو قابض اسرائیل کی حکومت اور غزہ پر مسلط جنگی درندگی کے خلاف دو ٹوک مؤقف اپنانے پر بارہا تنقید اور حملوں کا نشانہ بنایا گیا، مگر انہوں نے کبھی پسپائی اختیار نہیں کی۔ وہ ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقِ آزادی اور خودمختاری کے مضبوط حامی رہے۔
بلومبرگ ویب سائٹ کے مطابق نیویارک کے میئر کے حالیہ انتخابات میں کئی دہائیوں کے بعد ووٹ ڈالنے کی سب سے زیادہ شرح دیکھی گئی۔
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق نیوجرسی کی ریاست میں ڈیموکریٹک امیدوار میکی شیریل نے گورنر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق انہیں 56 فیصد ووٹ ملے جبکہ ان کے ری پبلکن حریف جیک چیٹاریلی کو 43 فیصد ووٹ ملے۔
اسی طرح ریاست ورجینیا میں ڈیموکریٹک امیدوار ابیگیل اسپانبرگر نے بھی واضح برتری سے کامیابی حاصل کی۔ سابق رکن کانگریس اور سی آئی اے افسرہ رہنے والی اسپانبرگر نے ری پبلکن امیدوار ونسوم ایرل سیئرز کو شکست دے کر ورجینیا کی تاریخ میں پہلی خاتون گورنر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
اسپانبرگر نے 58 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کی مخالف کو 43 فیصد ووٹ ملے۔ ان کی فتح کو ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے ایک اہم سیاسی موڑ قرار دیا جا رہا ہے جس نے آئندہ وسط مدتی انتخابات سے قبل پارٹی کو نئی توانائی دی ہے۔
دوسری جانب ری پبلکن پارٹی کی ان انتخابات میں شکست کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک بڑا سیاسی امتحان قرار دیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے ردعمل میں “ٹرتھ سوشل” پلیٹ فارم پر کہا کہ چونکہ ان کا نام ووٹ کی پرچی پر نہیں تھا اور حکومت بندش (شٹ ڈاؤن) جاری تھی، اس لیے ری پبلکن امیدواروں کو نقصان اٹھانا پڑا۔
امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹک رہنما چک شومر نے کہا کہ ان انتخابات کے نتائج امریکی عوام کی جانب سے ٹرمپ کی انتہا پسندانہ ایجنڈا کے خلاف دو ٹوک ردعمل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عوام نے نفرت، لالچ اور انارکی کو مسترد کر کے عدل، رواداری اور سماجی انصاف کے پیغام کو قبول کیا ہے۔
ڈیموکریٹک سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا کہ زهران ممدانی کی نیویارک میں جیت امریکہ کی جدید تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی حیرتوں میں سے ایک ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ انصاف، مساوات اور آزادی کا پیغام عوام کے دلوں میں گھر کر گیا ہے۔