یورپ میں بسنے والے فلسطینیوں کی 29 تنظیموں اور اداروں نے غیر آئینی فلسطینی صدر محمود عباس سے عہدہ صدارت چھوڑنے کا مطالبہ کر دیا، جس کی وجہ عباس کی جانب سے 1967ء کے حدود پر لولی لنگڑی فلسطینی ریاست کے بدلے فلسطینیوں کے مسلمہ حقوق سے دستبردار ہونے کے ارادے کا اظہار ہے۔ یورپ میں 29 فلسطینی تنظیموں کے دستخط شدہ بیان میں کہا گیا ہے کسی بھی فلسطینی شخصیت کی جانب سے اسرائیلی خواہشات کے مطابق کسی بھی شخص کو اپنے علاقے سے نکالنے کی بات کرنے والے شخص کا محاسبہ کیا جانا ضروری ہے، اپنی سرزمین پر بسنا فلسطینیوں کا ایسا حق ہے جس پر کوئی سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔ بیان میں کہا گیا کہ محمود عباس کے اسرائیلی ٹیلی ویژن کو دیے گئے انٹرویو نے دنیا میں ہر جگہ فلسطینیوں کو شدید حیرت میں مبتلا کردیا ہے، اس انٹرویو میں انہوں نے ایک لولی لنگڑی اور کمزور فلسطینی ریاست کے بدلے فلسطینی قوم کے مسلمہ حقوق سے دستبرداری کے ارادے کا اظہار کیا تھا، انہوں نے ایسی فلسطینی ریاست پر رضامندی ظاہر کی ہے جس میں فلسطینیوں کے حق واپسی، اور اپنے گھر میں آزادی سے رہنے کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی جائے گی۔ بیان میں کہا گیا کہ محمود عباس اور اس کے ساتھیوں کی باتوں پر کان دھرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ کسی بھی شخص کو فلسطینی قوم کے مسلمہ حقوق سے دستبرداری کا اختیار حاصل نہیں، یہ ایسے حقوق ہیں جن کے لیے ہماری قوم نے کئی دہائیوں تک قربانیاں دی ہیں۔ چنانچہ فلسطینیوں کی جانب سے ’’یہودی ریاست کو تسلیم کرنے‘‘ یا ’’رہائشیوں کے تبادلے‘‘ جیسے اسرائیلی احکامات پر عمل کرنے کے لیے فلسطینی حقوق سے دستبرداری کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یورپی تنظیموں نے اپنے بیان میں پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سیکرٹری یاسر عبد ربہ کے بیان کی بھی شدید مذمت کی، واضح رہے کہ عبد ربہ نے اپنے ایک بیان میں اسرائیل کو ’’یہودی ریاست‘‘ تسلیم کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ یورپی ممالک میں فلسطینیوں کی مختلف تنظیموں نے محمود عباس کے بیان کو سنہ 1948ء میں قبضہ کیے گئے فلسطینی علاقوں کے باسیوں کے وجود کے لیے بھی انتہائی خطرناک قرار دیا، بالخصوص اس صورت میں جب یہ بیان اسرائیل کی جانب سے ’’اسرائیلی ریاست کے ساتھ وفاداری‘‘ جیسے قوانین کی منظوری کے موقع پر سامنے آیا ہے۔ مسئلہ فلسطین کے افق پر ہونے والی حالیہ پیش رفت فلسطینیوں کی بے دخلی، ان کے گھروں کو خالی کرانے جیسی حالیہ اسرائیلی کوششوں کے فریم ورک میں مزید تشویش کا باعث بن گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پی ایل او اور اسرائیل کی حالیہ کارروائیوں پر عالمی دنیا کی مجرمانہ خاموشی سے واضح طور پر معلوم ہورہا ہے کہ نام نہاد سکیورٹی عمل کے نام پر اسرائیلی مقاصد کے حصول میں مدد اور مسلمہ فلسطینی حقوق سے دستبرداری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جا رہا ہے۔