اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ بیت المقدس میں قبلہ اول کو یہودیت میں تبدیل کرنے کے لیے ایک نئے اور وسیع تر منصوبے پر کام شروع کرنے کے لیے تین کروڑ ڈالر کا بجٹ منظور کیا ہے.صہیونی حکومت کی طرف سے یہ بجٹ ایک ایسے وقت میں میں منظور کیا گیا ہے جبکہ حال ہی میں میں مسجد اقصیٰ کے مضافات میں یہودی بستیوں کی تعمیر میں توسیع کے لیے “ڈویلپمنٹ اسکیم” کے تحت ایک تعمیراتی منصوبے کا اعلان کیا ہے. اسرائیل کے عبرانی زبان میں کثیرالاشاعت اخبار”یدیعوت احرونوت” نے اپنے انٹرنیٹ ایڈیشن کی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیلی کابینہ نے تین ملین ڈالر کی خطیر رقم کا بجٹ صرف مسجد اقصیٰ کی تاریخ دیوار”دیوار براق” اور اس کے گرد و نواح میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو وسعت دینے کے لیے دیا ہے. یہ رقم آئندہ چار سال کے اندر قسط وار مختلف وزارتوں کے ذریعے منصوبے پر خرچ کی جائے گی. سرکاری اداروں کےعلاوہ یہودی بستیوں کی تعمیر میں سرگرم بعض تنظیموں کو بھی اس بجٹ میں سے حصہ فراہم کیا جائے گا. رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے تازہ منصوبوں کا مقصد مسجد اقصیٰ کے اور اس گرد و پیش میں موجود فلسطینی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو وہاں آباد کرنا ہے. تین کروڑ ڈالر کا یہ بجٹ تعمیراتی مقاصد کے لیے وقف ہو گا. دوسری جانب فلسطینی وکیل اور ماہر آثار قدیمہ قیس ناصر نے اسرائیلی حکومت کے نئے بجٹ کو قبلہ اول کے خلاف ایک سازش قرار دیا ہے. اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک جانب یہودی بستیوں کی تعمیرو توسیع کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے قبلہ اول کے گرد زمین کو ہتھیا رہا ہے اور زیرزمین کھدائیاں کر کے مسجد اقصیٰ کو نقصان پہنچا رہا ہے دوسری جانب خطیر رقم مختص کر کے زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو وہاں آباد کرنے کے لیے کوشاں ہے. انہوں نے بتایا کہ بیت المقدس باالخصوص مسجد اقصیٰ کے مضافات کو یہودیت میں تبدیل کرنے کا صہیونی منصوبہ نیا نہیں بلکہ سنہ 2006ء اور 2010ء کے درمیان اسرائیل 20 ملین ڈالر کی رقم بیت المقدس کو یہودیانے پر لگا چکا ہے.