مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ۔ خصوصی رپورٹ
مقبوضہ مغربی کنارے کے تاریخی الخلیل شہر میں واقع مسجد ابراہیمی گذشتہ کئی برسوں کے دوران سب سے خطرناک مراحل میں سے ایک کا سامنا کر رہی ہے، کیونکہ صہیونی حملوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے مذہبی، تاریخی اور انتظامی کردار کو بدلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جسے ماہرین منظم حملہ قرار دیتے ہیں، جو مسجد کو مکمل طور پر یہودی بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
مسجد ابراہیمی کمپلیکس کے ڈائریکٹر معتز ابو سنینہ نے کہا کہ بار بار ہونے والے حملے اب محض الگ تھلگ واقعات نہیں رہے، بلکہ باقاعدہ سرکاری پالیسی کے تحت مسجد اور اس کے اطراف میں نئے زمینی حقائق قائم کو قانونی جواز فراہمی کی کوشش کی جا رہی ہے۔
کنٹرول مستحکم کرنا
مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ابو سنینہ نے بتایا کہ صہیونی حملے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ہوتے ہیں، چاہے وہ فوجی ہوں یا آبادکار۔ یہ سب “سیکورٹی وجوہات” کی آڑ میں کیے جاتے ہیں، جبکہ اصل مقصد قبضے کو مکمل طور پر دوام بخشنا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ قابض فوج عبادت کرنے والے مسلمانوں کے لیے مسجد کو کئی گھنٹوں یا بعض اوقات پورے دنوں کے لیے بند کر دیتی ہے، خاص طور پر یہودی مذہبی تقریبات کے دوران، جو مذہب اور عبادت کی آزادی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ابو سنینہ نے کہا کہ قابض حکام فلسطینیوں کی مسجد میں نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کرتے ہیں اور تلاشی کے اقدامات تک محدودیت کی حد تک سخت کر دی جاتی ہے، تاکہ مسلمانوں کی تعداد کم کی جا سکے اور ان کی موجودگی محدود ہو۔
انہوں نے مزید بتایا کہ قابضین نے مسجد کے ارد گرد کیمروں اور نگرانی کے آلات کی تنصیب بڑھا دی ہے اور فوجی دروازے مضبوط کیے ہیں، تاکہ سکیورٹی کنٹرول کو مضبوط کیا جا سکے اور کسی بھی آزاد فلسطینی موجودگی کو کم کیا جا سکے۔
مسجد کے ارد گرد ایسی سرگرمیاں جاری ہیں، جو علاقے کو یہودی ثقافت اور قبضے کے مطابق تبدیل کرنے کی کوششیں ہیں۔ جن میں کھدائی، آبادکاروں کے لیے مخصوص راستے بنانے اور تاریخی راستوں کی تبدیلی شامل ہے۔
ابو سنینہ نے بتایا کہ قابض فوج فلسطینی بحالی کمیٹی کو مسجد یا اس کے صحنوں میں مرمت کی اجازت نہیں دیتی، جبکہ آبادکاری اداروں کو قبضہ شدہ حصوں میں تبدیلی اور مرمت کی اجازت دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے خطرناک اقدامات وہ ہیں، جو مسجد کی صوتی شناخت کو متاثر کرتے ہیں، جیسے اذان میں خلل ڈالنا یا بلند آہنگ سپیکروں کی آواز کم کرنا، یہ کارروائیاں ماہانہ کئی بار دہرائی جاتی ہیں۔ اذان کو روکنا محض مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ یہ اسلامی شناخت کو مٹانے اور مسجد کو مکمل طور پر یہودی رسومات کے لیے تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔
مسلمانوں پر اسرائیلی فوجیوں اور آبادکاروں کی طرف سے حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس میں مار پیٹ، دھکم پیل، گرفتاریاں اور مسجد میں داخلے سے روکنا شامل ہے، خاص طور پر فجر کی نماز کے اوقات میں۔
ابو سنینہ کے مطابق قابض فوج “مکمل زمانی تقسیم” نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جیسا کہ مسجد اقصیٰ میں کیا گیا، تاکہ مخصوص اوقات صرف یہودیوں کے لیے مخصوص ہوں۔ انہوں نے کہا کہ قابض فوج “وسیع مکانی تقسیم” بھی نافذ کرنا چاہتی ہے، جس میں مسجد کے مزید حصوں پر قبضہ اور انہیں 1994 میں نمازیوں کو گولیوں سے بھوننے کے بعد تقسیم شدہ علاقوں میں شامل کرنا شامل ہے۔
ابو سنینہ نے کہا کہ صہیونی عملے نے مسجد کے اندر سکیورٹی پر نظر رکھنے کے بہانے نئے آلات نصب کیے ہیں، جبکہ اصل مقصد داخلی ڈھانچے پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ اقدامات محض سکیورٹی اقدامات نہیں بلکہ الخلیل شہر کی پرانی بستی کو یہودی رنگ میں رنگنے اور مسجد کو یہودی مذہبی مرکز میں تبدیل کرنے کے ایک وسیع منصوبے کا حصہ ہیں۔
ابو سنینہ کے مطابق بین الاقوامی خاموشی قابضین کو بغیر جوابدہی کے اپنے حملے بڑھانے کا موقع دیتی ہے اور انہیں یہ یقین دلاتی ہے کہ مسجد ان کے یہودی بنانے کے منصوبوں کے لیے کھلی میدان بن چکی ہے۔
ہدف بنا کر شناخت تبدیلی کی کوشش
اسی سلسلے میں فلسطین کے مفتی شیخ محمد حسین نے کہا کہ مسجد ابراہیمی پر حملے فلسطین کی تمام اسلامی اور عیسائی مقدسات کو نشانہ بنانے والی پالیسیوں کا حصہ ہیں، جس میں سب سے آگے مسجد اقصیٰ ہے۔
مفتی دیار فلسطین مرکز اطلاعات فلسطین کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کہا کہ قابض فوج مقدسات پر قابو پانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کر رہی ہے، جن میں نمازیوں کو روکنا، دھات کے دروازے لگانا، مرمت کی پابندیاں اور سخت نگرانی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسجد ابراہیمی اور مسجد اقصیٰ کے خلاف یہ اقدامات محض سکیورٹی اقدامات نہیں، بلکہ یہ مقدس فلسطینی عرب شناخت کو تبدیل کرنے کی واضح کوششیں ہیں۔
مفتی فلسطین نے بتایا کہ قابض فوج ایسی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے، جس سے فلسطینیوں کو مسجد میں داخل ہونا مشکل اور محدود محسوس ہو، جبکہ آبادکار آزادانہ طور پر داخل ہو سکتے ہیں۔
شیخ محمد حسین کے مطابق مسجد ابراہیمی کو نشانہ بنانا مفصل مذہبی تقسیم کے منصوبے کا حصہ ہے، جو برسوں سے جاری ہے اور آج اس کا رخ مزید سخت اور واضح ہو گیا ہے۔انہوں نے اسرائیلی اقدامات کو عقیدہ اور تاریخ دونوں پر حملہ قرار دیا، کیونکہ یہ مسجد فلسطین اور دنیا کے سب سے مقدس اسلامی مقامات میں سے ایک ہے۔
مفتی نے کہا کہ قابض فوج کا مسجد ابراہیمی کی انتظامیہ پر قابو پانا بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے، کیونکہ یہ ایک خالص اسلامی وقف ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ مسجد صرف ایک عبادت گاہ نہیں، بلکہ شہر کی تاریخی شناخت کا حصہ اور فلسطینیوں کی زمین، ورثے اور موجودگی سے تعلق کا مرکزی عنصر ہے۔
مفتی کے مطابق الخلیل میں فلسطینیوں کی ثابت قدمی اور مسجد میں ان کی مستقل موجودگی قابض فوج کے حملوں کے خلاف پہلی دفاعی لائن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قابض فوج مسجد کو نمازیوں سے خالی کرنے اور آبادکاروں کو قبضہ دینے کی کوشش کر رہی ہے، جیسا کہ تاریخی طور پر مختلف اوقات میں مسجد قدس میں ہوا۔
مفتی نے کہا کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ جبر کے ذریعے جگہ کی نوعیت میں تبدیلی ہے، کیونکہ یہ اقدامات کسی قانونی یا مذہبی جواز پر مبنی نہیں ہیں۔ انہوں نے عرب اور اسلامی ممالک سے اپیل کی کہ وہ قابض فوج کو روکنے کے لیے مؤثر اقدام کریں، کیونکہ مسجد ابراہیمی صرف مقامی معاملہ نہیں، بلکہ پوری امت کا مسئلہ ہے۔
شیخ محمد حسین نے کہا کہ صرف بیانات کافی نہیں، کیونکہ قابض فوج دنیا کی توجہ ہٹانے کا فائدہ اٹھا کر مقدسات پر قبضہ بڑھا رہی ہے۔ انہوں نے عالمی اداروں خاص طور پر یونیسکو کی سرگرمی کو دوبارہ فعال کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ خلیل میں اسلامی آثار کو مٹانے سے روکا جا سکے۔
مسجد ابراہیمی پر حملہ، مفتی فلسطین کے مطابق، اسلامی وقف پر حملوں کی ایک کڑی ہے، چاہے وہ القدس، الخلیل یا دیگر فلسطینی شہروں میں ہو۔ انہوں نے زور دیا کہ دینی اور قومی فریضہ ہے کہ فلسطینی مسجد میں موجود رہیں اور ہر ممکن قانونی اور عوامی حمایت کے ذریعے مسجد کو دفاع فراہم کریں، کیونکہ مسجد ابراہیمی کی لڑائی جملہ تفصیلات کی نہیں، بلکہ بقا کی جنگ ہے۔