(فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) جب بھی فلسطین کی بات ہوتی ہے تو اذہان میں حق اور باطل کا پیمانہ سامنے آجاتا ہے ۔ یہ بالکل اسی طرح سے ہے کہ جب جب کربلا کا ذکر ہوتا ہے تو حسینی کردار یزیدی کردار کو شکست خوردہ کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی اذہان حق اور باطل کے معرکہ کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں ۔ یہ فارمولہ رہتی دنیاتک قائم و دائم رہے گا ۔ حق کی قوتیں باطل قوتوں کے ساتھ نبرد آزما رہیں گی اور ممکن ہے کبھی ظاہری طور پر حق کی قوت کو دو قدم پیچھے ہونا پڑتا ہو لیکن آخر کار حق ہی ہے جو غالب آتا ہے اور غالب ہی آنے والاہے ۔ بالآخر باطل کو نابود ہونا ہی ہے۔
فلسطین کی جب جب بات ہوتی ہے تو ہمارے سامنے ایک ایسا خاکہ کھنچا چلا جاتا ہے کہ جس میں صہیونی جرائم کی ایک طویل داستان رقم ہے ۔ صہیونیوں کے فلسطینی عوام کے خلاف جرائم کی تاریخ ایک سو سال پر محیط ہو چکی ہے ۔ جیسا کہ مقالہ کے عنوان میں ہی بیان کیا گیا ہے کہ فلسطینی عوام کے خلاف صہیونی جرائم میں عالم مغرب کی آشیرباد یا شراکت داری ۔ جی ہاں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے سے علم ہوتا ہے کہ سرزمین فلسطین پر صہیونیوں کی ناجائز ریاست بنانے کے لئے برٹش آرتھر بالفور ،امریکی ٹریو مین اور اسی طرح دیگر مغربی ممالک کے مختلف سیاست مداروں نے صہیونیوں کا ساتھ دیا ۔ صہیونیوں کے ان مغربی آقاءوں نے نہ صرف فلسطین پر صہیونیوں کی ناجائز ریاست کے قیام کے لئے ان کا ساتھ دیا بلکہ فلسطین پر صہیونیوں کے ناجائش تسلط کے لئے صہیونیوں کو ہر قسم کی آزادی فراہم کی تا کہ وہ فلسطینی عوام کا قتل کریں اور ان کو انہی کی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کریں ۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے درمیانی حالات میں اگر صرف فلسطین کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں پائی جاتی ہے کہ عالم مغرب نے صہیونیوں کے فلسطینی عوام کے خلاف جرائم کی پشت پناہی اور ان کی مدد کی ہے ۔ اس لئے اگر آج کہ جدید دنیا میں یہ بات کہی جائے کہ فلسطینی عوام کے خلاف صہیونیوں کے ایک سو سالہ جرائم اور ظلم میں امریکہ، برطانیہ او ر دیگر مغربی ممالک برابر کے شریک ہیں تو یہ بات بالکل بے جا نہ ہو گی ۔
آج بین الاقوامی فورم پر امریکی اور مغربی سامراج فلسطین پر قائم غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست کا حامی نظر آتا ہے ۔ مغربی ذراءع ابلاغ کی حالت تو اس طرح کی ہے جیسے صہیونیوں کے غلام ہوں ۔ امریکی اور یورپی سامراج فلسطین میں جاری قتل و غارت گری اور ہر قسم کی انسانی حقوق کی پامالی سمیت نا انصافیوں میں برابر کا شریک جرم ہے ۔
آج جو کچھ جدید دنیا میں فلسطین کے ساتھ کیا جا رہاہے یہ خود جدید دنیا کے چہرے پر ایک بد نما داغ کی مانند ہے ۔ عالمی اداروں کی کھلی بے حسی ان کی کمزوری اور حیثیت کو واضح کر رہی ہے ۔ آج فلسطینی عوام دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم عوام ہے ۔ جہاں اس معاملہ میں غرب برابر کا شریک ہے وہاں آج عرب بھی اس معاملہ میں صہیونیوں کے جرائم میں برابر کا شریک کار ہے ۔ آج مغربی دنیا کی ایماء پر عرب دنیا کے چند ممالک فلسطینی عوام کے خلاف کھڑے ہو چکے ہیں ۔ انہیں فلسطین کی مذہبی اور ثقافتی حمیت سے بھی کوئی غرض نہیں ۔ ان کے لئے فلسطینی عوام کا بہنے والا خون شاید نالیوں میں بہنے والے گندے پانی سے بھی کم قیمت رکھتا ہے ۔ انتہائی دکھ کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ مسلم دنیا کی سب سے مقدس زمین حجاز و یثرب پر قائم آل سعود کی حکومت اسرائیل کے ساتھ یارانہ بنا چکی ہے ۔ یمن میں براہ راست امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کا قتل عام کر رہی ہے ۔ بحرین ، عرب امارات اور ان کی دیکھا دیکھی کچھ افریقی ممالک بھی اسی راستہ پر چل نکلے ہیں ۔ انہوں نے قدس شریف کا سودا کرنے کی ٹھان رکھی ہے ۔ ان کو انبیاء علیہم السلام کی سرزمین سے کوئی لگاءو باقی نہیں رہا ۔ اب ایسے حالات میں یہ عرب حکمران ہوں یا مغربی حکمران ہوں ، ان میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ہے ۔ یہ تاریخی اعتبار سے شاید فلسطینی عوام کے لئے بدترین دور تشبیہ کیا جائے ۔ یہاں ان عرب حکمرانوں کے اس گھناءونے کردار سے نہ صرف فلسطین کی تاریخ کے لئے سیاہ باب ہے بلکہ دنیا کی دیگر مظلوم اقوام کہ جن میں سرفہرست فلسطین کے بعد کشمیری ہیں ، ان کو بھی دھچکا اور گہری چوٹ پہنچ رہی ہے ۔ یہ سوال مقبوضہ کشمیر کی وادی میں جنم لے چکا ہے کہ جن مسلمان اور عرب ممالک نے مغربی ممالک کی تقلید کرتے ہوئے اسرائیل کی پردہ داری شروع کر دی ہے تو اب ان سے کشمیر کے معاملہ پر کیا توقع کی جا سکتی ہے;238; ۔ یقینا مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کی یہ تشویش بر حق ہے ۔
حیرت انگیز اور افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ عرب دنیا کے حکمرانوں نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی ابتداء ایک ایسے زمانہ میں شروع کی ہے کہ جب خود صہیونی جعلی ریاست اسرائیل سیاسی طور پر غیر مستحکم نظر آ رہی ہے اور اسی طرح عسکری عنوان سے بھی اب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی پوزیشن یہ ہے کہ آخری معرکہ انہوں نے اڑھتالیس گھنٹوں سے زیادہ میدان میں باقی نہیں رہ پائے ۔ اسی طرح حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے سیاسی و عسکری میدان میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی حاصل کی ہے ۔ جہاں اسرائیل میں ایک سال میں تین مرتبہ انتخابات ہوئے ہیں وہاں فلسطین کی قانون ساز کونسل کے انتخابات میں حماس اور مزاحمتی گروہوں کی کامیابی نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے ۔
ایک طرف صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل ہے کہ جس نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ کسی طور پر بھی اپنے ظالمانہ اقدامات سے رکنے والا نہیں ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ شاید امریکہ اور یورپی ممالک سمیت اب عرب دنیا کے حکمرانوں کی جانب سے اسرائیل کی کمر تھپ تھپانا ہو ۔ بہر حال مسلم دنیا کے عرب ممالک کو چاہئیے کہ وہ فلسطینی عوام کی امنگوں کا خیال رکھیں ۔ اگر فلسطین کی مدد نہیں کر سکتے اور کرنا نہیں چاہتے تو کوئی بات نہیں لیکن ان کی پیٹھ پر خنجر بھی نہ گھونپے ۔ عرب دنیا کے حکمرانوں کو چاہئیے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارتکاری کے فیصلے واپس لیں ۔ اس عنوان سے لاطینی امریکہ کے ممالک اگرچہ وہ کئی ممالک سے نسبتا چھوٹے ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کے اقدامات کئے ہیں جو قابلِ تحسین ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین پر صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کا قیام اس لئے عمل میں لایا گیا تھا تا کہ مغربی ایشیائی ممالک میں مسلمان حکومتوں کو کمزور کر کے اس خطے کے وسائل پر اسرائیل قابض ہو جائے اور گریٹر اسرائیل کے ناپاک منصوبہ کو عملی جامہ پہنا سکے ۔ عالم مغرب نےاس منصوبہ کی تکمیل کے لئے اسرائیل کی ہر ممکنہ مدد جاری رکھی تا کہ اسرائیل محفوظ رہے ۔ بہر حال گذشتہ ستر سالوں میں اب اسرائیل کی صورتحال یہ ہے کہ وہ مسلسل سازشوں اور قتل و غارت گری سمیت قبضوں کے بعد آخر کار اپنے ہی گرد دیواریں قائم کر رہا ہے ۔ یعنی اسرائیل پھیلنے کی بجائے سکڑ رہا ہے ۔ ان سب باتوں سے بڑھ کر آج امریکہ میں یہودیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی موجود ہے جو اسرائیل کے وجود کو جعلی تصور کرتی ہے اور فلسطین کو فلسطینیوں کا مانتی ہے ۔ مسئلہ فلسطین اور اس کی حمایت ایک ایسا وسیلہ ہے کہ جس کی مددسے مسلم امہ متحد ہو سکتی ہے بلکہ عالم مغرب کی تمام سازشوں اور جرائم کا منہ توڑ جواب بھی دے سکتی ہے ۔ آج دنیا بھر میں عوام کے جذبات اسرائیل مخالف ہیں ، دنیا کے عوام مظلوم اقوام کے ساتھ ہیں ۔ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان میں ہماری نوجوان نسل فلسطینیوں کیساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کر رہی ہے ۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جس نے روز اول سے ہی فلسطین کاز کی حمایت جاری رکھی ہے اور یہ حمایت پاکستان کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ;231; کی اصولی و نظریاتی سیاست کے اجزاء سے حاصل ہوئی ہے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان