کراچی ( فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) جب فلسطین کی مزاحمت کی بات کی جاتی ہے تو اس ضمن میں فلسطین کے وہ گروہ مراد ہیں کہ جو مقبوضہ فلسطین کے اندر اور سرحدوں پر غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ ان معرکوں کی تفصیل کا اگر طائرانہ جائزہ لیا جائے تو اس طرح سے بیان کیا جا سکتا ہے کہ سنہ1967 اور 1973سمیت سنہ1982کے واقعات اور عرب اسرائیل جنگوں میں اسرائیل کی جانب سے مسلسل عرب علاقوں پر قابض ہونے کے واقعات ملتے ہیں اور اسی دوران سنہ1979ء میں ایران کی سرزمین پر اسرائیل کی دوست حکومت کا خاتمہ ہو نے کے ساتھ ساتھ اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہوتا ہے۔
اسلامی انقلاب کے سورج کے طلوع ہوتے ہی کرنیں فلسطین،لبنان، شام اور مصر سمیت ان مقبوضہ علاقوں میں پھیلتی ہیں جن پر غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے تسلط کے سایہ منڈلا رہے تھے۔
انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین میں، فلسطینی اسلامی مزاحمت جہاد اسلامی کے نام سے جنم لے چکی تھی جس کی قیادت ڈاکٹر فتحی شقاقی کر رہے تھے اسی طرح بعد میں اسلامی مزاحمتی گروہ حماس نے جنم لیاجس کی قیادت مجاہد عظیم شیخ احمد یاسین کر رہے تھے۔
اسی طرح مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں پر جنوبی لبنان سے حزب اللہ نامی مزاحمتی گروہ امام موسیٰ صدر، شہید راغب حرب اور شہید عباس موسوی کی قیادت میں جنم لیتی ہے، یہ وہ زمانہ تھا جب اسرائیل طاقت کے نشہ میں دھت فلسطین کی سرحدو ں کو عبور کرتا ہوا مصر اور اردن سمیت شام کے کئی علاقوں پر قابض ہو چکا تھا۔ حد تو یہ تھی کہ اسرائیلی فوجوں نے لبنان کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
ایسے حالات میں دنیا کے لئے شاید یہ سمجھنا مشکل تھا کہ اب کبھی یہ علاقے واپس ان ممالک کے باشندوں کو مل سکیں گے۔
25مئی سنہ 2000کی بات ہے کہ جب ذرائع ابلاغ پر پہلی مرتبہ یہ خبریں نشر ہورہی تھیں کہ اسرائیل لبنان سے فرارہو رہا ہے، ایسی حالت میں اسرائیلی افواج فرار ہو رہی ہیں کہ اپنا اسلحہ اور جنگی ساز و سامان بھی ساتھ لے کر نہیں جاپا رہی ہیں۔
ان خبرو ں نے دنیا کی سیاست اور عالمی استعمار کے ان سودا گروں کو ہلا کر رکھا دیا کہ جو اسرائیل کی پشت پناہی کرنے میں مصروف تھے تا کہ اسرائیل کے ذریعہ وہ پورے غرب ایشیاء اور پھر جنوبی ایشائی ممالک تک راج کریں اور اقتصاد کے نظام پر مکمل تسلط حاصل کر لیں۔یہ سنہ1948ء سے اب تک پہلا موقع تھا کہ جب اسرائیل کی ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی فوج کو لبنان میں چند مٹھی بھر جوانوں کے سامنے شکست کا سامنا تھا۔
یہ جوان مزاحمت فلسطین حزب اللہ کے سپوت تھے جنہوں نے پورے لبنان کو اسرائیلی چنگل سے نجات دلوا کر یہ ثابت کر دیا کہ فلسطینی مزاحمت اسرائیل کے سامنے ڈٹ چکی ہے اور اب عرب علاقوں کی شکست کا دور ختم ہو کر عرب حمیت کی بحالی اور فتوحات کا دور شروع ہو چکا ہے۔
دوسری طرف اسرائیل اگر چہ لبنان سے فرار کر گیا تھا لیکن اپنی اسی شکست اور ذلت کا انتقام لینے کے لئے بے چین تھا اور موقع دیکھتے ہی سنہ2006ء میں اسرائیل نے لبنان پر 33 روزہ جنگ مسلط کی اور پھر تاریخ اس بات پر گواہ بنی کہ 34ویں روز اسرائیل کی وہی نام نہاد ناقابل تسخیر قوت لبنان میں ایک انچ بھی پیش قدمی کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
حالانکہ اس جنگ کے دنوں کی بات ہے کہ جب امریکی وزیرخارجہ کولن پاؤل اور کونڈولیزا رائس اپنے بیانات میں کہتے تھے کہ چند دنوں میں نیا مشرق وسطیٰ یعنی غرب ایشیا جنم لے گا اور اس کا پالن ہار اسرائیل ہو گا۔ لیکن امریکہ اور استعماری قوتو ں کے تمام منصوبے اس وقت خاک کی نظر ہو گئے جب چونتیس دن کے بعد اسرائیلی فوج حزب اللہ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر جنگ بندی کی اپیل کر رہی تھی۔
یہاں پھر وہی بات یاد آتی ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور پھر لبنان سے اسرائیلی قبضہ کا خاتمہ اور 33روزہ جنگ میں مزاحمت فلسطین کی کامیابی ”فتوحات کے دور“ کی نشاندہی کر رہی تھی۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ مزاحمت فلسطین خود مقبوضہ فلسطین میں کس طرح ان فتوحات کے دور کا آغاز کر رہی تھی۔ اسرائیل لبنان میں مزاحمت کے ہاتھوں مسلسل شکست کھانے کے بعد اپنی طاقت کا زعم دکھانے اور فلسطینیوں سے اس شکست کا انتقا م لینے کے لئے سنہ 2008ء میں غزہ پر حملہ آور ہوا۔
اسرائیل کو یہاں پر فلسطینی مزاحمت کی طرف سے حیرت انگیز جواب ملا جس کی اسرائیل کو توقع ہی نہ تھی۔اکیاون د ن تک اسرائیل مسلسل اس جنگ میں وارد رہا اور اپنے متعین کردہ جنگی اہداف میں سے ایک بھی حاصل کئے بغیر جنگ بندی کرنے کی اپیل کرنے لگا۔ اس جنگ میں بھی جہاں فلسطینیوں کو جانی اور مالی نقصان کا سامنا رہا وہاں اسرائیل کو بھی بد ترین جانی نقصان اٹھا نا پڑا جس کے بعد اسرائیل نے شکست کے طور پر یہاں بھی جنگ بندی کو ترجیح دی۔
اس کے بعد اسرائیل نے 2010اور 2011میں بھی غزہ اور دیگر علاقو ں پر جنگیں مسلط کیں لیکن ہر مرتبہ فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی تحریکوں جہاد اسلامی اور حماس نے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیا۔اس عنوان سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان فتوحات کے دور میں ایران کے اسلامی انقلاب کی پروان کرد ہ عالمی اسلامی شخصیت او رالقدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی خدمات کا ذکر ملتا ہے۔
ان کی گذشتہ برس امریکی حملہ کے نتیجہ میں ہونے والی شہادت کے بعد سے فلسطینی رہنماؤں کی جانب سے ان کی غزہ میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والی جنگوں میں قاسم سلیمانی کے کردار پر روشنی ڈالی ہے اور کہا گیا ہے کہ فلسطین کے اندر مزاحمت کو مسلح اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے میں جنر ل قاسم سلیمانی پیش پیش رہے ہیں اور اکثر اوقات محاصروں کو توڑتے ہوئے، زیر زمین سرنگوں اور خفیہ راستوں سے فلسطین پہنچ جاتے تھے اور اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کرتے تھے۔
اسی طرح لبنان میں ہونے والی اسرائیل مخالف جدوجہد اور جنگوں میں بھی شہید قاسم سلیمانی کا کردار نمایا ں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت حماس کے سربرا ہ اسماعیل ہانیہ نے قاسم سلیمانی کو شہید القدس کا لقب دیا ہے اور آج بھی مقبوضہ فلسطین میں قاسم سلیمانی کو شہید القدس کے عنوان سے یاد کیا جا رہا ہے۔
اب اگر سنہ2011سے 2020تک کا زمانہ بھی دیکھا جائے تو اسرائیل نے اس مرتبہ داعش نامی گروہ کو جنم دے کر اپنی تمام تر ذلت اور شکست جو فلسطین مزاحمت کے ہاتھوں اٹھائی تھی اس کا انتقام لینے کی کوشش کی لیکن یہاں بھی مسلسل ناکام رہا۔
اسلامی مزاحمت کی تحریکوں نے فلسطین و شام اور عراق تک داعش کے اس فتنہ کا سر رگڑ کر رکھ دیا ہے۔حقیقت میں داعش کی شکست امریکہ اور اسرائیل کی شکست ہے۔ فتوحات کا دور جاری ہے۔ جس کی تاریخ سنہ1979ء سے شروع ہو کر تاحال جاری ہے۔
حالیہ دنوں میں بھی اگر ہم دیکھیں تو فلسطینی مزاحمتی گروہ جہا ں جنوبی لبنان میں طاقتور ہو چکے ہیں وہاں مقبوضہ فلسطین میں بھی مثال نہیں ملتی۔
گذشہ دو ہفتو ں کے دورا ن جنوبی لبنان میں مزاحمت نے اسرائیل کے ایک ڈرون طیارے کو مار گرایا ہے تو دوسی طرف گذشتہ دنوں حماس اور جہاد اسلامی کے جوانوں نے مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی ڈرون طیارے کو مار پھینکا ہے۔ یہ سب اس جد وجہد اور کوشش کا نتیجہ ہے جو اسلامی مزاحمت کی تحریکوں کو طاقتور بنانے کے لئے القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی (شہید القدس) نے انجام دی تھیں۔
اس کاوشوں کا ثمر آج پوری فلسطینی ملت اور عرب اقوام فتوحا ت کی صورت میں حاصل کر رہی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ آج دنیا کے لئے سپر پاور سمجھے جانے والی حکومت امریکہ او ر اس کے مغربی اتحادی اور چند عرب اتحادی سب کے سب مل کر بھی فلسطین کی مزاحمت کے سامنے بے بس ہیں۔ خاص طور پر اسرائیل جو امریکی و اتحادو حکومتوں کی پشت پناہی رکھنے کے باوجود مزاحمت فلسطین کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو چکا ہے۔
اسرائیل کے لئے اپنا وجود باقی رکھنا بھی ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ جبکہ مزاحمت فلسطین فتوحات کے دور میں داخل ہونے کے بعد مزید آگے بڑھ رہی ہے اور اب کہا جا رہا ہے کہ حیفا شہر بھی مزاحمت فلسطین کے نشانہ پر ہے اور آئندہ کسی بھی اسرائیلی حماقت کے نتیجہ میں اسرائیل کا ایٹمی پلانٹ بھی نشانہ بن سکتا ہے اور مزاحمت فلسطین کا نشانہ حیفا بنے گا۔یقینا یہ دور اسلام اور اسلامی انقلاب اور مزاحمت فلسطین کی فتوحات کا دور ہے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان