متنازعہ فلسطینی صدر محمودعباس نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل ان کے ساتھ کسی امن سمجھوتے پر تیار ہو تو وہ فلسطینیوں کے دیرینہ مطالبات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہیں. مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق محمود عباس نے یہ بیان اسرائیلی وزیر خارجہ آوی گیڈرلائبرمین کے ایک بیان کے کچھ دیربعد دیا، جس میں مسٹرلائبرمین کا کہنا تھا کہ “اگراسرائیل کو ایک یہودی مملکت کے طور پر تسلیم نہ کیا گیا تو مقبوضہ فلسطین کے اندر سے قومی مطالبات کے حق میں آواز بلند ہونا شروع ہو جائےگی”. محمود عباس نے کہا کہ اسرائیلی وزیرخارجہ کے دعوے اور خدشات بالکل غلط ہیں ان میں کوئی حقیقت نہیں.اسرائیلی حکومت اگر ان کے ساتھ کسی امن سمجھوتے پر تیار ہو تو وہ فلسطینیوں کے تاریخی مطالبات سے دستبردار ہونےکو تیار ہیں. تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا وہ کون سے مطالبات ہیں جن سے وہ دستبرداری کا ارادہ کر رہے ہیں. اسرائیل کے عبرانی ٹی وی کو ایک انٹرویو میں محمود عباس نے کہا کہ اگر اسرائیل خود کو ایک یہودی مملکت کے طور پر متعارف کرانا چاہتا ہےتوہمیں کوئی اعتراض نہیں،اسرائیل ایک خود مختار ملک ہے وہ جس طرح چاہے کرے تاہم وہ فلسطینیوں سے خود کو یہودی ریاست تسلیم کرانے کا مطالبہ کیوں کر رہا ہے. اسرائیل نے یہ مطالبہ مصر، اردن یا کسی دوسرے ملک کے سامنے کیوں نہیں رکھا.دوسری جانب فلسطین کی بڑی جماعتوں حماس اور جہاد اسلامی نے محمود عباس کے اس بیان پر کڑی تنقید کی ہے. فلسطینی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہےکہ محمود عباس اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی آڑ میں فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی سودے بازی کرنا چاہتے ہیں.