اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) نے متنازعہ فلسطینی صدر محمود کی فتح کے سینٹرل کمیٹی کے اجلاس کے دوران کی گئی تقریر کوتضادات سے بھرپور اور رائےعامہ کو گمراہ کرنے کا حربہ قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ محمود عباس نے فتح کی سینٹرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ حماس جمہوریت اور قومی اصولوں پر یقین نہیں رکھتی، انہوں نے فلسطین میں جنوری 2010 میں انتخابات کے اپنے عزم کو دوہراتے ہوئے کہا کہ حماس فلسطین میں انتخابات میں رکاوٹ پیدا کر کے مجلس قانون ساز کی مدت میں مزید پانچ سے سات سال کی توسیع کرنا چاہتی ہے۔ دوسری جانب حماس کی جانب سے جاری ایک بیان میں صدر عباس کے الزامات کو بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صدرعباس حماس کو بدنام کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ محمود عباس فلسطینی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کی کوششوں کو ناکام بنانے کی بھی ذمہ دار ہیں اور وہ امریکا، روس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ پرمشتمل چار رکنی کواٹریٹ کی ہدایات پرعمل درآمد کرتے ہوئے اسرائیل سے سازباز کر رہے ہیں۔ بیان میں صدر کے اس بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حماس مجلس قانون ساز کی مدت میں توسیع کرنا چاہتی ہے، بیان میں واضح کیا گیا کہ حماس کا فلسطینی مجلس قانون ساز کی آئینی مدت میں توسیع کا نہ تو اس سے قبل کوئی مطالبہ تھا اور نہ ہی آئندہ ہوگا، تاہم محمود عباس جو خود ہی غیر آئینی طور پر اپنے عہدہ صدارت کی مدت کو توسیع دینے کے بعد صدارت سے چمٹے ہوئے ہیں، انہیں اس طرح کی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ آئین کی پامالی میں ان کا اپنا دامن داغدار ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ محمود عباس کے قول و فعل میں کھلا تضاد ہے، وہ ایک جانب اسرائیل کے ساتھ نام نہاد مذاکرات قومی اصولوں سے انحراف اور پسپائی اختیار کر رہے ہیں اور دوسرے جانب خود کو قومی اصولوں کا پاسدار ظاہر کر رہے ہیں۔ حماس نے محمود عباس سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ جرات مندانہ فیصلوں کا دعویٰ کرتے ہیں توامریکا اور اسرائیل کے دباؤ سے نکل آئیں، بیان میں فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ جاری سیکیورٹی تعاون پر بھی شدید تنقید کی گئی اور فلسطینی اتھارٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو سیکیورٹی تعاون کے سلسلے میں فراہم کردہ تمام سہولتیں واپس لی جائیں اور عباس ملیشیا کو اسرائیلی ایجنٹ کے بجائے قوم کا محافظ ادارہ بنایا جائے۔