ہفتے اور اتوار کو لیبیا میں ہونے والے عرب سربراہ اجلاس کے اختتام پر فلسطینی صدر محمود عباس اور شام کے بشار الاسد کے درمیان اس وقت سخت جملوں کا تبادلہ ہوا جب شامی صدر نے فلسطینی تحریک مزاحمت کی حمایت کی اور محمود عباس کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
عرب نشریاتی ادارے”الجزیرہ” کی رپورٹ کے مطابق شامی صدر بشارالاسد نے فلسطین میں تحریک مزاحمت جاری رکھنے اور اس کی پشتیبانی کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ عرب ممالک کو اسرائیل کے خلاف مذاکرات اور سیاسی اسٹریٹیجی کے بجائے مزاحمت کی حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پرامن مزاحمت ہی وقت کی ضرورت ہے۔
ادھر اجلاس میں شریک شامی وزیرخارجہ ولید المعلم نے کہا کہ ان کا ملک فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات کا سخت مخالف ہے کیونکہ یہ امن مذاکرات اسرائیل کو جارحیت جاری رکھنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں، بقول ان کے فلسطین اور عرب ممالک میں موجودہ حالات میں صحیح ترین موقف پر قائم ہیں جبکہ اسرائیل سے مذاکرات کے حامی ممالک کاموقف حقائق کے منافی ہے۔
دوسری جانب مدت صدارت ختم ہونے کے باوجود غیر قانونی طور پرکرسی صدارت پر متمکن محمود عباس نے شام کے موقف کی سخت مخالفت کرتے ہوئے شام ، حماس اور اسرائیل سے مزاحمت کی حامی قوتوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔