برطانوی اخبار ’’ انڈیپینڈنٹ آن سنڈے‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ دبئی کے حکام نے اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے رہنما محمود مبحوح کے قتل کے شبہ میں چار ماہ قبل گرفتار برطانوی شہری سے تفتیش شروع کر رکھی ہے۔ یہ برطانوی شہری مبحوح کے قتل کے سلسلے میں 19 واں مشتبہ شخص ہے۔
معروف صحافی رابرٹ فسک نے دبئی کے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ برطانیہ کا ملزم اپنے حقیقی نام کے ساتھ دبئی پہنچا تھا جبکہ قتل کی کارروائی میں ملوث دوسرے افراد کے بخلاف اس کے پاس جعلی نہیں بلکہ حقیقی برطانوی پاسپورٹ تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اخبار کو مشتبہ برطانوی کے متعلق بہت سی معلومات موصول ہوئی ہیں مگر اخبار انہیں شائع نہیں کرنا چاہتا، ان کا کہنا تھا کہ یہ شخص 1948 ء میں پیدا ہوا اس کے پاس 24 اکتوبر سنہ 2007 ء تا 2018 ء کا پاسپورٹ موجود ہے۔ اس کا باپ ایک یہودی تھا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد ہجرت کر کے برطانیہ آ گیا تھا۔
برطانوی اخبار نے واضح کیا کہ دبئی حکام انٹرنیشنل پولیس (انٹر پول) کو اس شخص کے بارے میں ساری تفصیلات اور اس کا پاسپورٹ نمبر دے چکے ہیں، اندازہ یہ لگایا جارہا ہے کہ یہ شخص یورپ کے کسی ملک میں غائب ہو گیا ہے۔
فسک نے دبئی ذرائع کے حوالے سے واضح کیا کہ دبئی حکام نے اس مشتبہ شخص کو اچھی طرح پہچان لیا ہے اس شخص نے بعد میں امریکا اور کینیڈا کا سفر بھی کیا ہے، دبئی حکام کے مطابق جس ہوٹل میں مبحوح کو قتل کیا گیا یہ شخص اس ہوٹل کے باہر کرائے کی کار لے کر کھڑا تھا، دبئی انتظامیہ کے خفیہ سیکیورٹی کیمروں نے اس کی واضح تصاویر محفوظ کرلی ہیں اور سیکیورٹی اہلکار ان تصاویر کی ایک کاپی برطانوی پولیس کے بھی حوالے کر چکے ہیں۔
فسک نے واضح کیا کہ حماس کے رہنما مبحوح کے قتل کی کارروائی میں برطانوی پاسپورٹ کے استعمال کی وجہ سے لندن اور تل ابیب کے تعلقات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ نئے برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کو واقعی بڑے مشکل حالات درپیش ہیں۔ بالخصوص ان کے پیش رو وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ اپنے سرکاری بیانات میں مبحوح کے قتل کی مذمت کر چکے ہیں۔
انہوں نے برطانوی پاسپورٹ کی نقل بنائے جانے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے قابض اسرائیل سے مستقبل میں ایسے بیانات نہ دوہرانے کی یقین دہانی کا بھی مطالبہ کیا۔