عرب لیگ کی بائیسویں دو روزہ سربراہ کانفرنس اتوار سے لیبیا کے شہر”سرت” میں شروع ہوگئی ہے۔”القدس سمٹ” کے نام سے جاری کانفرنس میں بیشتر عرب ممالک کے صدور، فلسطینی اتھارٹی کے نمائندے اور دیگر عرب راہنما شرکت کر رہے ہیں۔ بیت المقدس کی تاریخی حیثیت کو اسرائیل کی جانب سے مسخ کرنے، شہرکو یہودیوں کی جانب سے درپیش خطرات، یہودی آباد کاری کے فروغ، فلسطینیوں کی شہر بدری کی وجہ سے عرب سربراہ کانفرنس کو”القدس سمٹ” کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
کانفرنس کا آغاز اتوار سے ہوا، جس میں سعودی عرب، شام ،لبنان، مصر،اردن، سوڈان اور دیگر عرب ممالک کے وزراخارجہ شریک ہیں جبکہ کانفرنس کے دوسرے روز عرب ممالک کے سربراہان شرکت کریں گے۔
ذرائع کے مطابق کانفرنس میں فلسطین کی موجودہ صورت حال، فلسطینی شہروں بیت المقدس اور مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری، مسجد اقصیٰ کے گرد کھودی جانے والی سرنگیں، اسرائیل کے ساتھ امن بات چیت، فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی حکومت کے درمیان بات چیت کے آغاز سمیت دیگر اہم موضوعات پر تفصیل کے ساتھ بحث کی جائے گی۔
کانفرنس میں بعض عرب ممالک کے سربراہان شرکت نہیں کر سکیں، ذرائع کے مطابق مصری صدرحسنی مبارک حال ہی میں جرمنی میں اپنے کامیاب آپریشن کے بعد وطن واپس ہوئے ہیں، وہ فی الحال ڈاکٹروں کی ہدایت پر”بیڈ ریسٹ” پر ہیں۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات کے شیخ خلیفہ بن زید آل نھیان، شاہ بحرین حمد بن عیسیٰ، عمان کے سلطان قابوس بن سعید، لبنان کے صدر میچل سلیمان، مراکش کے شاہ محمد اور عراقی صدر جلال طالبانی شرکت نہیں کر سکیں گے جبکہ کانفرنس سعودی فرمانروا کی جانب سے شرکت کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع موصول نہیں ہو سکی، تاہم اجلاس میں بیشتر ممالک کے وزراخارجہ شریک ہیں۔
دوسری جانب فلسطین میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) سمیت تمام فلسطینی تنظیموں نے القدس سمٹ سےمطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی تمام ترتوجہ مسئلہ فلسطین پر مرکوز کرتے ہوئے بیت المقدس کو یہودی آباد کاری سے بچانے، قبلہ اول کے تحفظ، غزہ کی معاشی ناکہ بندی رکوانے اور اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کا نوٹس لینےکا مطالبہ کیا ہے۔
غزہ میں حماس کی جانب سے جاری ایک بیان میں عرب سربراہ کانفرنس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں منعقد ہو رہی ہے جبکہ فلسطین بالخصوص بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ تاریخ کے نازک ترین دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایسے میں عرب سربراہان کی اخلاقی، سیاسی، سفارتی اور مذہبی ذمہ داری ہے کہ وہ القدس کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کریں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اب وقت صرف بیانات کا نہیں رہا، موجودہ نازک حالات میں بھی عرب ممالک کے بیداری اور ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا تو بیت المقدس کو درپیش خطرات سے بچانا مشکل ہو جائے گا۔
حماس نے اپنے عرب ممالک کی توجہ غزہ کی پٹی کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے اس شہر کو قابض اسرائیل نے گذشتہ تین برس سےمعاشی ناکہ بندی کے حصار میں بند کر رکھا ہے جس کے باعث ڈیڑھ لاکھ افراد پر مشتمل آبادی کا یہ شہر بدترین انسانی صورت حال سے گزر رہا ہے۔
حماس نے عرب لیگ سے مطالبہ میں مزید کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ بات چیت کی حمایت ترک کرتے ہوئے فلسطینی مزاحمت کاروں کے ہاتھ مضبوط کرے۔ کیونکہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے باوجود وہ نہ صرف فلسطین میں یہودی آبادکاری جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ مسجد اقصیٰ کی مسلسل بے حرمتی کی جا رہی ہے۔
ادھر فلسطینی مزاحمتی تنظیم جہاد اسلامی سمیت دیگر فلسطینی جماعتوں نے بھی عرب سربراہ کانفرنس سے اسرائیل سے مذاکرات کی حمایت ترک کرتے ہوئے فلسطین کے بارے میں عملی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ عرب ممالک میں موجود اخوان المسلمون سمیت کئی دیگر جماعتوں نے بھی کانفرنس سے تمام تر توجہ مسئلہ فلسطین پر مرکوز کرنے کے مطالبات کیے ہیں۔