عرب ملک لبنان میں پناہ فلسطینی مہاجرین کی کسمپرسی کی اکا دکا خبریں منظرعام پر آتی رہتی ہیں. لبنان میں مقیم فلسطینیوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے یہی وہ امتیازی رویہ ہے جس کے باعث لبنان کے کئی مہاجر کیمپوں میں لاکھوں فلسطینی پناہ گزین بنیادی ضروریات سے محروم ہیں. حتیٰ کہ بچوں کے ابتدائی نوعیت کے امراض کے علاج کی سہولیات سے بھی محروم ہیں. مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق حال ہی میں بیروت کے قریب “عین الحلوة” نامی مہاجر کیمپ میں ایک گیارہ سالہ بچہ محمد نبیہ آکسیجن کی معمولی سے مقدار نہ ملنے کے باعث اپنے والد کی گود میں تڑپ تڑپ کر جان ہار گیا. رپورٹ کے مطابق محمد نبیہ کا والد اسے لے کر اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی “اونروا” کے زیرانتظام اسپتال میں گیا لیکن اسپتال انتظامیہ نے کہا کہ ان کے پاس اس کے علاج کے لیے ادویہ موجود نہیں .بچے کو آکسیجن کی فوری ضرورت تھی. صرف ایک لیٹر آکسیجن کی بوتل کے نہ ملنے کے باعث نونہال چل بسا. متوفی بچے کے والد نے لبنانی اخبار”مستقبل” سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کا بچہ گذشتہ دس سال سےایک عجیب سی بیماری کا شکار تھا.اسے آکسیجن کی شدید کمی محسوس ہوتی تھی. شرو ع میں اسے ایک اسپتال کی جانب سے زندگی قائم رکھنے کے لیے آکسیجن فراہم کی جاتی تھی تاہم کئی ماہ سے بچہ نہایت تکلیف میں مبتلا تھا اور آکسیجن میسر نہیں تھا. فلسطینی مہاجر نے بتایا کہ اسے اس کے فلسطینی ہونے کی سزا دی گئی ہے. وہ جس بھی حکومتی اسپتال میں بچے کو لے کر گیا تو اسے صرف اس لیے دوائی فراہم نہیں کی گئی کہ وہ فلسطینی ہے.
“اونروا “کا کردار فلسطینی مہاجرین کی بہبود میں سرگرم اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی “اونروا” لبنان میں فلسطینی مہاجرین کی طبی سہولیات کی ذمہ دار سمجھی جاتی ہے لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے اس کا کردار نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے. فلسطینی پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ محمد نبیہ یہ کسی بچے کا علاج نہ ملنے کے باعث موت میں منہ میں چلے جانے کا پہلا کیس نہیں بلکہ اس سے قبل بھی ایسا متعدد مرتبہ ہو چکا ہے. کئی خواتین اور دوسرے شہری بھی بنیادی طبی سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث جان ہار چکے ہیں. فلسطینی پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ مہاجرکیمپوں میں قائم اونروا کی ڈسپنسریاں ختم کی جا چکی ہیں اور جو باقی رہ گئی ہیں ان میں ادویات ناپید ہیں.