مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
فلسطین مرکزبرائے مطالعہ اسیران نے قابض اسرائیل کی جیلوں میں انسانی صورتحال کی سنگینی پر تشویش ظاہر کی ہے، خاص طور پر نقب کی جیلوں میں جہاں سردی و بارش کے آغاز کے ساتھ قیدیوں کے جسمانی اعضاء جم گئے ہیں اور وہ دو سال سے کسی قسم کی حرارت یا سردیوں کے لباس سے محروم ہیں۔
مرکز کے جاری کردہ بیان کے مطابق نقب، نفحہ اور ريمون میں موجود جیلیں جن میں غزہ پر جنگ کے دوران قائم کی جانے والی نئی جیلیں، جیسے سدیہ تيمان شامل ہیں جہاں تقریباً نصف قیدی پابند سلاسل ہیں، انتہائی سخت حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
درجہ حرارت صفر کے قریب پہنچ گیا ہے اور پانی کی رسائی کے باعث قیدیوں کی کچھ ذاتی اشیاء بھی خراب ہو گئی ہیں۔
نقب کی جیل میں دوگنی مشکلات
مرکز کے ڈائریکٹر ریاض الاشقر نے بتایا کہ نقب کی جیل سب سے زیادہ متاثر ہے، جہاں دو ہزار پانچ سو سے زائد قیدی قید ہیں اور کچھ خیمے نما حصے بارش سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ قابض اسرائیل کی انتظامیہ قیدیوں کے لیے کمبل اور سردیوں کے کپڑے داخل کرنے کی اجازت نہیں دیتی اور نئے قیدی بغیر کسی تبدیلی کے قید میں آ جاتے ہیں۔ حالات کو مزید بگڑنے کا سبب یہ ہے کہ قیدیوں کو گرم پانی تک رسائی نہیں دی جاتی، جس کا اطلاق اسرائیل کے انتہا پسند وزیر سکیورٹی ایتمار بن گویر کے فیصلوں کے تحت ہے۔
ریاض الاشقر نے کہا کہ قیدی پہلے ہی سخت قید و شکنجہ کی صورتحال میں ہیں، لیکن موجودہ سردی نے مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے ،زکام، کھانسی اور بخار جیسی سردیوں کی بیماریوں کے امکانات بڑھا دیے ہیں، جبکہ طبی علاج اور پچھلے دو سالوں سے استعمال ہونے والی جڑی بوٹیاں جیسے بابونج اور ميرمية بھی ممنوع ہیں۔
سردی کے لیے ناقص انتظامات
مرکز نے واضح کیا کہ جیلوں کی بنیادی ڈھانچے سرد موسم سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہے اور قیدیوں کو صبح کے ابتدائی اوقات میں سکیورٹی کے بہانے باہر نکالا جاتا ہے، جس سے ان کی صحت مزید خراب ہوتی ہے۔
مرکز نے بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سے فوری مداخلت اور آزاد کمیٹیوں کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے تاکہ جیلوں کا دورہ کیا جا سکے، قیدیوں کی صورتحال کا جائزہ لیا جا سکے اور قابض اسرائیل پر دباؤ ڈال کر دو سال سے معطل دوروں کا دوبارہ آغاز یقینی بنایا جا سکے۔
جاری جنگ اور انسانی تباہی
یہ حالات اس وقت سامنے آئے ہیں جب قابض اسرائیل سنہ 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ پر امریکہ اور یورپ کی حمایت سے جاری جنگ میں مصروف ہے، جس کے نتیجے میں فلسطینی سرکاری ذرائع کے مطابق دو لاکھ تینتیس ہزار سے زائد افراد شہید یا زخمی ہوئے، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، جبکہ تقریباً گیارہ ہزار لاپتہ اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔ قحط اور غذائی قلت نے شہریوں کی، زیادہ تر بچوں کی، جانیں نگل لیں، اور غزہ کے بیشتر شہروں اور علاقوں میں تباہی پھیل گئی۔
فلسطین برائے قیدی مطالعات اور دیگر حقوقی ادارے انتباہ دیتے ہیں کہ قیدیوں کے حالات قابض اسرائیل کی “اجتماعی سزا” کی پالیسی کا تسلسل ہیں اور اس انسانی بحران کے بڑھنے سے قبل بین الاقوامی سطح پر مؤثر اقدامات ضروری ہیں۔