مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
امریکی ۔یورپی صحافی ڈیو کیٹنگ نے خبردار کیا ہے کہ یورپی گیتوں کا معروف مقابلہ یوروویژن اس صورت میں ناقابلِ عمل ہو سکتا ہے اگر مزید ممالک ان ریاستوں کی صف میں شامل ہو گئے جنہوں نے قابض اسرائیل کو مقابلے میں شامل کرنے کی اجازت کے خلاف احتجاجاً دستبرداری اختیار کی ہے۔
ڈیو کیٹنگ نے خبر رساں ایجنسی اناطولیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یورپی نشریاتی اتحاد ان اصلاحات کو نافذ کرنے کی پوزیشن میں نہیں جو مقابلے سے الگ ہونے والے ممالک کو واپس لانے کے لیے ضروری ہیں۔ ان کے مطابق شریک ممالک کی جانب سے بار بار دی جانے والی وارننگز کو نظرانداز کرنے سے بحران مزید گہرا ہو گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسپین ہالینڈ آئرلینڈ سلووینیا اور آئس لینڈ وہ پانچ یورپی ممالک ہیں جنہوں نے غزہ پر جاری جارحیت کے باوجود قابض اسرائیل کو یوروویژن میں شامل کرنے کے فیصلے کے بعد باضابطہ طور پر مقابلے سے دستبرداری کا اعلان کیا۔
ڈیو کیٹنگ کے مطابق انخلا کی وجوہات صرف غزہ کی انسانی صورت حال تک محدود نہیں بلکہ ووٹنگ کے عمل کو سیاسی رنگ دیے جانے پر بھی شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ گذشتہ دو برسوں کے دوران عوامی ووٹ میں قابض اسرائیل کی غیر معمولی برتری نے شکوک و شبہات کو جنم دیا کیونکہ ان گیتوں کی مقبولیت اس سطح کی نہ تھی جو اس قدر ووٹ ملنے کی وضاحت کر سکے خاص طور پر اسپاٹیفائی جیسے پلیٹ فارمز پر۔
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ قابض اسرائیلی حکومت نے ایک مشاورتی کمپنی کی خدمات حاصل کیں تاکہ ووٹنگ مہم چلائی جا سکے اور امریکہ میں موجود افراد کو ووٹ دینے کے پیغامات بھیجے گئے حالانکہ یہ مقابلہ وہاں نشر ہی نہیں کیا جاتا۔
ڈیو کیٹنگ کا کہنا تھا کہ اگرچہ قابض اسرائیل نے مقابلے کے تحریری قواعد کی خلاف ورزی نہیں کی مگر اس نے ووٹنگ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر کے یوروویژن کی روح کو پامال کیا۔ انہوں نے یورپی نشریاتی اتحاد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ اس نے ووٹنگ کے قواعد میں ترمیم یا انتخابی مہمات کو منظم کرنے سے اس خدشے کے تحت انکار کیا کہ کہیں یہ تاثر نہ ابھرے کہ قابض اسرائیل نے کوئی غلطی کی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ مستقبل میں شریک ممالک کو ایسے فنکار ڈھونڈنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے جو اپنے ملک کی نمائندگی پر آمادہ ہوں۔ انہوں نے مثال دی کہ پرتگال میں 16 گلوکاروں نے واضح کر دیا ہے کہ اگر انہیں منتخب کیا گیا تو وہ مقابلے میں حصہ نہیں لیں گے اور امکان ظاہر کیا کہ یہی صورتحال سویڈن جیسے ممالک میں بھی پیدا ہو سکتی ہے جسے یوروویژن کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔
ڈیو کیٹنگ نے زور دیا کہ اگر سویڈن سنہ 2026ء کے یوروویژن مقابلے سے غیر حاضر ہوا تو یہ اس مقابلے کے مکمل خاتمے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ یوروویژن کھیلوں کے بعد دنیا کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا ٹیلی وژن ایونٹ ہے اور واحد بڑا ثقافتی پروگرام ہے جو امریکہ کی شرکت کے بغیر منعقد ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قابض اسرائیل سے جڑے تنازع کے باعث یوروویژن کا خاتمہ یورپ کے لیے ایک نہایت بڑا اور افسوسناک نقصان ہوگا۔
یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب فنکارانہ سطح پر احتجاج میں تیزی آ رہی ہے۔ بیلجیم کے 170 فنکاروں نے یوروویژن سنہ 2026ء میں بیلجین نشریاتی ادارے کی شرکت کی مذمت کی ہے جبکہ اسکینڈینیوین ممالک کے تقریباً چار ہزار فنکاروں نے قابض اسرائیل کو مقابلے سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان فنکاروں کا کہنا ہے کہ قابض اسرائیل کی شرکت غزہ پر اس کی جارحیت کو خوبصورت بنانے کی کوشش ہے جس کے نتیجے میں سنہ اکتوبر 2023ء سے اب تک 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 71 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔
