Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

غزہ

قابض اسرائیل کی نام نہاد جنگ بندی، امریکی سرپرستی میں ’امن‘ کے نام پر ایک نیا فریب

غزہ ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) جب قابض اسرائیل اور اس کا پشت پناہ امریکہ غزہ میں ’’جنگ بندی‘‘ کی باتیں کر رہے ہیں، اسی وقت قابض افواج کے ٹینک اور جنگی طیارے فلسطینیوں کے خون سے زمین رنگین کر رہے ہیں۔ فلسطینی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ کوئی حقیقی جنگ بندی نہیں بلکہ ’’آگ کے ساتھ مشروط جنگ بندی‘‘ ہے جس میں بمباری اور قتل و غارت کے ساتھ ’’امن‘‘ کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی اور امریکہ کی کھلی حمایت نے قابض اسرائیل کو مزید درندگی پر اکسایا ہے۔

گذشتہ منگل کی شام سے آج صبح تک قابض افواج نے غزہ کے مختلف علاقوں پر درجنوں فضائی حملے کیے جن میں 100 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، جن میں 35 معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ بارہ گھنٹے سے بھی کم وقت میں درجنوں مکانات ملبے کا ڈھیر بنا دیے گئے۔ صبح دس بجے قابض فوج نے سیاسی قیادت کی ہدایت پر ’’جنگ بندی‘‘ کے دوبارہ آغاز کا اعلان کیا، مگر اس اعلان کے فوراً بعد ہی قتل و بربادی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔

قابض فوج نے دعویٰ کیا کہ اس نے ایک اسرائیلی فوجی کی ہلاکت کے جواب میں کارروائیاں کیں جو رفح میں ایک مبینہ فلسطینی سنائپر کی گولی سے مارا گیا تھا، حالانکہ فلسطینی مزاحمت نے اس واقعے سے مکمل لاتعلقی ظاہر کی۔ اس کے باوجود قابض حکام نے اس واقعے کو جنگ کے دوبارہ آغاز کا بہانہ بنا لیا۔ قابض اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کوئی نئی بات نہیں، اس نے اعلان کے لمحے سے ہی معاہدے کو روند ڈالا ہے۔

فوجی ماہر بریگیڈیئر حسن جونی کے مطابق قابض افواج جو کچھ کر رہی ہیں، وہ دراصل ایک نئی صورت حال مسلط کرنے کی کوشش ہے جس کے تحت مخصوص مجاہدین کو نشانہ بنا کر انہیں ’’خلاف ورزی‘‘ کے بہانے قتل کیا جائے تاکہ مزاحمت کی تنظیمی و عسکری ساخت کو کمزور کیا جا سکے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر قابض اسرائیل کا یہ رویہ مسلسل جاری رہا تو یہ پورے خطے کے لیے خطرناک موڑ ثابت ہو گا۔

آتش وآہن جاری

سیاسی تجزیہ نگار علاء الریماوی کے مطابق قابض اسرائیل اور امریکہ نے ’’آگ کی روانی‘‘ کے نام سے ایک نیا فارمولا اپنایا ہے جس کے تحت سیاسی سطح پر سکون دکھایا جاتا ہے مگر فوجی ہاتھ آزاد رکھے جاتے ہیں۔ انہوں نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے گفتگو میں کہا کہ قابض اسرائیل محدود اور مسلسل کارروائیاں کرتا ہے تاکہ دنیا کے سامنے یہ تاثر قائم رہے کہ وہ جنگ بندی پر قائم ہے حالانکہ وہ دراصل اپنے ’’قابو‘‘ کے دائرے میں قتل و غارت جاری رکھتا ہے۔

الریماوی کے مطابق اسرائیل عالمی برادری کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ امن کا خواہاں ہے مگر امریکہ کے سامنے وہ ایک الگ کہانی سناتا ہے کہ غزہ، لبنان اور شام سے مسلسل ’’سکیورٹی خطرات‘‘ لاحق ہیں، اس لیے کارروائیاں ناگزیر ہیں۔ امریکہ نے بھی اسی جھوٹی منطق کو تسلیم کر رکھا ہے جس کے باعث قابض اسرائیل کھلی چھوٹ کے ساتھ اپنی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے۔

انہوں نے بتایا کہ قابض اسرائیل کی موجودہ حکمتِ عملی تین بنیادوں پر قائم ہے:
پہلی، مزاحمت کی قیادت پر مسلسل ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ضرب لگانا۔
دوسری، شہری آبادی اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر کے سماجی و نفسیاتی دباؤ بڑھانا۔
تیسری، غزہ کی جغرافیائی تقسیم کے منصوبے کے ذریعے نئے ’’محفوظ علاقوں‘‘ کی آڑ میں قابض اسرائیل کے زیر اثر خطے پیدا کرنا تاکہ غزہ کو عملاً دو حصوں میں بانٹ دیا جائے، ایک مزاحمت کے زیر قبضہ اور دوسرا قابض فوج کے کنٹرول میں۔

قابض اسرائیل کے بہانے اور فریب

سیاسی تجزیہ نگار عزيز المصری نے لکھا کہ بنجمن نیتن یاھو اور اس کے وزراء نے غزہ میں جارحیت کے جواز کے لیے ایک نیا ڈرامہ رچایا ہے۔ خانیونس سے ایک اسرائیلی قیدی کی لاش نکالنے کے منظر کو میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تاکہ ’’انتقامی کارروائی‘‘ کا بہانہ بنایا جا سکے۔ امریکہ نے بھی اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ’’جذباتی معاملہ‘‘ ہے، حقیقی سکیورٹی خطرہ نہیں۔ اس طرح قابض اسرائیل کو کھلی اجازت دے دی گئی کہ وہ محدود کارروائیاں جاری رکھے۔

المصری کے مطابق یہ سب دراصل قابض اسرائیل کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت وہ وقفے وقفے سے ’’نئے اہداف‘‘ کا انتخاب کرتا ہے تاکہ جنگ بندی کے وقفوں کو بھی اپنے جنگی ایجنڈے کے لیے استعمال کر سکے۔

کاغذی جنگ بندی

سیاسی محقق عماد ابو عواد کے مطابق غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ جنگ بندی نہیں بلکہ قابض اسرائیل کی طرف سے ’’آگ کے کنٹرول شدہ بہاؤ‘‘ کی حکمت عملی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر درجنوں فلسطینی شہید ہو رہے ہیں، مگر عالمی ادارے خاموش ہیں۔ قابض اسرائیل اس قتل و غارت کو ’’خلاف ورزیوں کا جواب‘‘ قرار دیتا ہے تاکہ جب چاہے بمباری شروع کر سکے۔

ابو عواد کا کہنا ہے کہ قابض اسرائیل دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش میں ہے کہ اس نے نسل کشی روک دی ہے اور اب محض دفاع کر رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ غزہ کے عوام کی زندگی کو ناقابلِ برداشت بنا چکا ہے۔ انسانی بحران بدترین سطح پر ہے، پانی، بجلی، خوراک اور علاج کے ذرائع تباہ کر دیے گئے ہیں۔ امریکہ قابض اسرائیل کے اس جھوٹے بیانیے کی پشت پر کھڑا ہے، جس کے باعث غزہ کے عوام کو کسی عالمی انصاف کی امید باقی نہیں رہی۔

انہوں نے خبردار کیا کہ قابض اسرائیل کے مسلسل خروقات سے ثالث ممالک جیسے مصر اور قطر کے لیے کردار ادا کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے، کیونکہ اسرائیل ہر بار جنگ بندی کو جارحیت کے تسلسل کے لیے استعمال کرتا ہے۔

نتیجتاً غزہ کا منظر ایک بار پھر دہکتا ہوا جہنم بن چکا ہے — ایک طرف ’’سیاسی امن‘‘ کی باتیں، دوسری طرف بموں، لاشوں اور ملبے سے بھری گلیاں۔ قابض اسرائیل نے ’’جنگ بندی‘‘ کو بھی اپنی درندگی کی نئی شکل بنا لیا ہے، اور عالمی خاموشی نے اس کے جرائم کو مزید طاقت دے دی ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan