مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
قابض اسرائیلی حکومت کے سربراہ بنجمن نیتن یاھو نے مصر کے ساتھ گیس کے ایک معاہدے کی حتمی منظوری کا اعلان کیا ہے، جسے انہوں نے نام نہاد تاریخی معاہدہ قرار دیا۔ اس معاہدے کی مجموعی مالیت تقریباً 112 ارب شیکل بتائی گئی ہے، جس کے تحت امریکی کمپنیاں فلسطینی وسائل سے لوٹی گئی گیس کو قابض اسرائیل کے زیر قبضہ گیس فیلڈز سے نکال کر مصر برآمد کریں گی۔
بنجمن نیتن یاھو نے بدھ کی شام ایک ریکارڈ شدہ پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ معاہدہ قابض اسرائیل کو توانائی کے شعبے میں ایک بڑی طاقت کے طور پر پیش کرے گا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کی حتمی منظوری دیتے وقت قابض اسرائیل کے تمام نام نہاد سکیورٹی مفادات کا مکمل تحفظ کیا گیا ہے۔ نیتن یاھو کے بقول یہ قابض اسرائیل کی تاریخ کا سب سے بڑا گیس معاہدہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ امریکی کمپنی شیورون کے ساتھ کیا گیا ہے اور اس میں قابض اسرائیل کے سکیورٹی اور اہم مفادات کو یقینی بنایا گیا ہے۔ نیتن یاھو کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے تحت کمپنیاں قابض اسرائیل کے شہریوں کو گیس مناسب قیمت پر فروخت کرنے کی پابند ہوں گی۔
نیتن یاھو نے وضاحت کی کہ معاہدے کی مجموعی رقم میں سے 58 ارب شیکل قابض اسرائیل کے سرکاری خزانے میں جائیں گے۔ ان کے مطابق ابتدائی چار برسوں کے دوران سالانہ آمدن تقریباً پانچ سو ملین شیکل ہوگی، جو بعد کے مراحل میں بتدریج بڑھ کر سالانہ تقریباً 6 ارب شیکل تک پہنچ جائے گی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس رقم کو سکیورٹی، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا اور یہ معاہدہ قابض اسرائیل کو توانائی کے میدان میں ایک علاقائی طاقت بنانے میں مدد دے گا اور ان کے بقول علاقائی استحکام کو فروغ دے گا۔
نیتن یاھو نے اعتراف کیا کہ اس معاہدے کو ماضی میں اندرونی مخالفت کا سامنا رہا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا رپورٹس اور مظاہروں میں پہلے یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ گیس نکالنے سے معیشت تباہ ہو جائے گی، مگر ان کے مطابق حقیقت نے ثابت کیا کہ گیس نے قابض اسرائیل کو بھاری منافع فراہم کیا۔
یہ اعلان بدھ کی شام ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا گیا جس میں توانائی کے وزیر ایلی کوہین بھی شریک تھے۔ اس سے قبل رواں ہفتے کے آغاز میں نیتن یاھو نے مصر کے ساتھ گیس معاہدے پر حتمی دستخط کے لیے گرین سگنل دیا تھا۔
اس معاہدے کی تفصیلات گذشتہ سال اگست میں منظر عام پر آئی تھیں، جب اس کی مجموعی مالیت سنہ 2040ء تک تقریباً 35 ارب ڈالر بتائی گئی تھی۔ معاہدے کے تحت قابض اسرائیل مصر کو مخصوص مقدار میں گیس برآمد کرنے کا پابند ہوگا۔
معاہدے کی تفصیلات
یہ گیس معاہدہ لیویاتان گیس فیلڈ کے شراکت داروں اور بی او ای کمپنی کے درمیان طے پایا ہے، جو مصری منڈی کے لیے اسی فیلڈ سے قدرتی گیس خریدتی ہے۔ معاہدے کے تحت مجموعی طور پر تقریباً 130 ارب مکعب میٹر گیس فراہم کی جائے گی، جس کی مالیت لگ بھگ 35 ارب ڈالر یعنی 112 ارب شیکل سے زائد بنتی ہے۔
معاہدے کے مطابق مصر کو گیس کی ترسیل سنہ 2040ء تک یا اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاہدے میں طے شدہ پوری مقدار فروخت نہ ہو جائے۔
یہ نیا معاہدہ پہلے سے موجود معاہدے میں توسیع ہے، جس کے تحت 60 ارب مکعب میٹر گیس فراہم کی جا رہی تھی اور جس کی مدت موجودہ عشرے کے اختتام پر ختم ہونا تھی۔ لیویاتان فیلڈ سے گیس کی پیداوار شروع ہونے کے بعد اب تک تقریباً 23.5 ارب مکعب میٹر گیس مصری منڈی کو فروخت کی جا چکی ہے۔
اس وقت یہ فیلڈ سالانہ تقریباً 4.5 ارب مکعب میٹر گیس معاہداتی بنیادوں پر فراہم کر رہا ہے، جس کے ساتھ ساتھ یومیہ غیر مستقل فروخت کی جانے والی مقدار بھی شامل ہے، جو مجموعی معاہداتی مقدار میں شمار کی جاتی ہے۔
اس معاہدے کی حتمی منظوری ایسے وقت میں دی گئی ہے جب قابض اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے فریقین کے درمیان آخری مرحلے میں ثالثی میں کردار ادا کیا۔ یہ سب کچھ وسیع تر علاقائی انتظامات کے تناظر میں ہو رہا ہے جنہیں واشنگٹن آگے بڑھانا چاہتا ہے۔
ان رپورٹس کے مطابق یہ معاہدہ امریکی سفارتی کوششوں سے جڑا ہوا ہے جن کا مقصد ایک نیا سیاسی راستہ کھولنا ہے، جس میں بنجمن نیتن یاھو اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے درمیان ملاقات کا اہتمام بھی شامل ہے۔ امریکہ کے نزدیک قابض اسرائیل کی جانب سے معاہدے کی منظوری السیسی کو اس عمل میں شامل کرنے کے لیے ضروری قدم ہے اور قاہرہ اور تل ابیب کے درمیان رابطوں کی بحالی کا دروازہ ہے، جو غزہ پر جنگ کے باعث معطل ہو چکے تھے۔
امریکی حلقوں کا اندازہ ہے کہ یہ معاہدہ مصر کی بجلی کی ضروریات کا ایک بڑا حصہ قابض اسرائیل کی گیس کے ذریعے پورا کرے گا۔ یہ سب ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد قابض ریاست کو توانائی، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت سے متعلق علاقائی اقتصادی انتظامات میں ضم کرنا ہے، جس میں خاص طور پر مصر، لبنان، شام اور سعودی عرب سے متعلق فائلوں پر توجہ دی جا رہی ہے، تاکہ تصادم کے امکانات کو کم کیا جا سکے اور جنگ کے بعد کے مرحلے میں نئے بندوبست کی راہ ہموار کی جا سکے۔
