Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

خاص خبریں

قابض اسرائیل کا نیا منصوبہ: نابلُس کے قریب 4600 دونم زمین ہتھیانے کی تیاری

غرب اردن ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

فلسطینی کمیٹی برائے دفاع اراضی نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیلی حکام نابلُس کے شمال مغرب میں واقع دو فلسطینی بستیوں سبسطیہ اور برقہ کی 4600 دونم اراضی پر قبضہ جمانے کے منصوبے کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ یہ قبضہ ایک استملاک آرڈر نمبر (2/25) کے تحت کیا جا رہا ہے جو اس تاریخی اور آثارِ قدیمہ سے مالا مال علاقے کو نشانہ بناتا ہے۔

اس فیصلے کے تحت سبسطیہ کی تقریباً 1800 دونم زمین ہڑپ کی جا رہی ہے جو بستی کی کل اراضی کا تقریباً 40 فیصد بنتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمین قابض اسرائیلی آثارِ قدیمہ اتھارٹی کے زیر انتظام آ جائے گی، جس کی نگرانی قابض اسرائیلی سول ایڈمنسٹریشن کے افسران اور قابض فوج سے وابستہ آثارِ قدیمہ کے اہلکار کریں گے۔

سبسطیہ کا وجود عہدِ برونز سے ہے جب یہاں قدیم اقوام آباد ہوئیں جنہیں کنعانی قبائل کی شاخیں سمجھا جاتا ہے۔ اس تاریخی شہر میں متعدد آثار آج بھی موجود ہیں جن میں مغربی دروازہ، ستونوں والی شاہراہ، مرکزی چوک، رومی رنگ گاہ، یونانی برج، آغستس کا معبد، بادشاہ عمری کا محل، یوحنا المعمدان کا گرجا، یونانی اسٹیڈیم اور معبد کوری شامل ہیں۔

کمیٹی کے سربراہ مؤید شعبان نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’یہ فیصلہ نہایت خطرناک اضافہ ہے جو ایک ایسے منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت قابض اسرائیلی انتظامیہ آثارِ قدیمہ کو بہانہ بنا کر بتدریج قبضہ بڑھا رہی ہے۔ فلسطینی تاریخی ورثے کو ہتھیار بنا کر اسے ایک استعماری، سیاسی آلہ کار میں بدلا جا رہا ہے‘‘۔

شعبان نے واضح کیا کہ یہ اقدام پہلا واقعہ نہیں بلکہ قابض اسرائیل کے ان مسلسل قانونی و سیاسی حربوں کا تسلسل ہے جن کے ذریعے وہ مغربی کنارے پر عملی قبضہ مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس تمام عمل کو تاریخی ورثے کے تحفظ کا نام دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے اس مجوزہ قانون کی طرف بھی اشارہ کیا جو قابض اسرائیلی کنیسٹ میں پیش کیا گیا ہے جس کے تحت قابض اسرائیلی آثارِ قدیمہ اتھارٹی کے اختیارات کو ساری مغربی کنارے تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس کا مقصد مغربی کنارے کی اراضی کو قابض اسرائیلی انتظامی و قانونی ڈھانچے میں مکمل طور پر ضم کرنا ہے، جو واضح طور پر ایک ’’قانونی قبضے‘‘ کا راستہ ہموار کرتا ہے۔

شعبان نے مزید کہا کہ یہ اقدام اُن وسیع حکومتی اقدامات کے بعد سامنے آیا ہے جن کے تحت قابض اسرائیلی حکومت نے مغربی کنارے میں آثارِ قدیمہ کی آڑ میں بڑے وسائل مختص کیے۔ قابض اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ مغربی کنارے میں 3064 یہودی ورثے کے مقامات موجود ہیں جن میں سے 2452 مقامات مکمل طور پر قابض اسرائیلی کنٹرول والے علاقے (ج) میں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مئی سنہ 2023 میں قابض اسرائیلی حکومت نے ’’تل سبسطیہ‘‘ کو ایک سیاحتی و تاریخی مقام میں تبدیل کرنے کے لیے 32 ملین شیکل مختص کیے، جو اس بات کا صاف اشارہ ہے کہ یہ تمام سرگرمیاں فلسطینی تاریخ کو مٹانے اور قابض اسرائیلی روایت کو مسلط کرنے کی ایک منظم سیاسی مہم کا حصہ ہیں۔

شعبان کے مطابق یہ اعلان دو ماہ قبل جاری کیے گئے متعدد فوجی احکامات کا تسلسل ہے جن کے ذریعے نابلس، رام اللہ اور سلفیت کی 63 آثارِ قدیمہ کی جگہوں پر قابض اسرائیلی کنٹرول میں اضافے کی راہ ہموار کی گئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قابض اسرائیل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہ صرف آثارِ قدیمہ بلکہ اُن کے اردگرد کے جغرافیے پر قبضہ مستحکم کر رہا ہے۔

انہوں نے فلسطینی، عرب اور عالمی سطح پر فوری اور بھرپور کارروائی کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے ثقافتی ورثے کو قبضے کے قانونی جواز کے طور پر استعمال کرنے کی کوششوں کا پردہ چاک کرنا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے فوری قانونی اعتراضات، سفارتی روابط اور حقوقی چارہ جوئی کو مضبوط بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan