مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
غزہ میں فلسطینی میڈیکل ریلیف سوسائٹی نے خبردار کیا ہے کہ دائمی امراض میں مبتلا مریضوں کو درپیش صحت کے خطرات خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں کیونکہ ان کے لیے مخصوص ادویات دستیاب نہیں اور قابض اسرائیل انہیں علاج کے لیے بیرون ملک سفر کی اجازت بھی نہیں دے رہا۔
جمعیہ کے ڈائریکٹر محمد ابو عفش نے ایک صحافتی بیان میں کہا کہ غزہ میں علاج کی سہولت میسر نہ ہونے اور بیرون ملک علاج کے لیے سفر پر پابندی کے باعث 1200 فلسطینی مریض جان کی بازی ہار چکے ہیں تاہم انہوں نے اس کی زمانی مدت کی وضاحت نہیں کی۔
اس سے قبل گذشتہ جمعہ کو عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر ٹیڈروس ادھانوم گیبریسوس نے کہا تھا کہ غزہ میں جولائی سنہ 2025ء کے نومبر تک 1092 مریض طبی انخلا کے انتظار میں دم توڑ گئے۔
نسل کش جنگ کے خاتمے کے باوجود غزہ سے مریضوں کے طبی انخلا کا عمل انتہائی سست روی کا شکار ہے کیونکہ قابض اسرائیل بدستور غزہ سے مریضوں کے نکلنے پر سخت پابندیاں عائد کیے ہوئے ہے۔
اسی تناظر میں محمد ابو عفش نے واضح کیا کہ ہڈیوں کے خصوصی جراحی آپریشنز میں سے 99 فیصد کے لیے کوئی بھی طبی سامان دستیاب نہیں جس کے باعث یہ آپریشنز مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس صورتحال کے نتیجے میں مریضوں اور زخمیوں کی زندگیوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت اس سے قبل خبردار کر چکی ہے کہ ہسپتالوں میں ادویات کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں کیونکہ ادویات میں کمی کی شرح 52 فیصد اور طبی استعمال کی اشیا میں 71 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
وزارت صحت نے بتایا کہ قابض اسرائیل طبی سامان لے جانے والی گاڑیوں کی غزہ میں آمد کو ماہانہ ضرورت کے 30 فیصد سے بھی کم تک محدود رکھے ہوئے ہے اور سیز فائر کے اس معاہدے سے بھی راہ فرار اختیار کر رہا ہے جو گذشتہ سال 10 اکتوبر کو نافذ العمل ہوا تھا۔
یہ معاہدہ اس نسل کشی کا خاتمہ بنا جو قابض اسرائیل نے 8 اکتوبر سنہ 2023ء کو شروع کی تھی۔ یہ سفاک جنگ دو برس تک جاری رہی اور اس کے نتیجے میں تقریباً 71 ہزار فلسطینی شہید اور 171 ہزار زخمی ہوئے جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔
