استنبول- مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
ترکیہ کے شہر استنبول میں ’’مؤتمر العہد للقدس‘‘ اپنے اختتام کو پہنچ گئی جہاں ایک جامع اور تاریخی دستاویز ’’عہدِ القدس: حق پر ثابت قدمی اور آزادی تک استقامت… نسل کشی اور مٹانے کی سازشوں کے مقابلے میں‘‘ کے عنوان سے اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اس اعلامیےکی تیاری میں عرب و اسلامی دنیا سے تعلق رکھنے والی تین سو سے زائد ممتاز علمی، سماجی، فکری شخصیات اور فلسطینی کاز پر سرگرم عالمی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
یہ دستاویز اس ہمہ گیر کانفرنس کا حاصل ہے جو ’’العہد للقدس: امت کی تجدید شدہ ارادے کی گواہی… نسل کشی اور تصفیہ کی سازشوں کا مقابلہ‘‘ کے عنوان سے منعقد ہوئی۔ دستاویز کی قرأت مصری مفکر ڈاکٹر محمد سلیم العوا، صدر مجلسِ امناء القدس انٹرنیشنل فاؤنڈیشن نے کی۔
دستاویز… عرب و اسلامی عوامی اتحاد کی نمایاں ترجمان
دستاویز ماضی میں ہونے والے ان تاریخی اجتماعات کے سلسلے کی توسیع ہے جنہوں نے استعمار کے پے در پے حملوں کے خلاف امت کے مشترکہ موقف کو نئی قوت دی۔ ان میں سنہ 1931 میں ثورہ البراق کے بعد ہونے والا بیت المقدس عام اجلاس اور سنہ 2007 میں انتفاضہ الاقصیٰ اور لبنان پر صہیونی حملے کے بعد منعقد ہونے والا استنبول انٹرنیشنل فورم شامل ہیں۔
دستاویز کے دس نکات میں واضح کیا گیا ہے کہ القدس اپنی اسلامی اور مسیحی مقدسات سمیت ایک عربی شناخت رکھتا ہے اور یہ حق خالصتاً فلسطینی عوام اور پوری امتِ مسلمہ کا ہے۔ مسجد اقصیٰ اپنی مکمل 144 ہزار مربع میٹر کی وسعت کے ساتھ مسلمانوں کا ناقابل تقسیم حق ہے۔ القدس کے کلیساؤں کا تحفظ اور آزادی عبادت نسل در نسل امت کے سر پر ایک ذمہ داری ہے۔
عرب و اسلامی اور عالمی عوامی عہد… نسل کشی کو جرم قرار دینے اور مجرموں کے محاسبے پر زور
دستاویز کا مرکزی محور قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری صہیونی نسل کشی ہے۔ اس میں واضح کیا گیا کہ قتل، تباہی، محاصرہ، بھوک، پیاس اور علاج سے محرومی کا عمل ایک مکمل جرم ہے جسے فوری طور پر روکا جانا لازم ہے اور ان کے مرتکبین کو عالمی عدالتوں میں کٹہرے میں لایا جائے۔
شرکاء نے ’’نسل کشی کو جنگی جرم‘‘ قرار دینےکے عوامی عہد کی توثیق کی جو محاصرے کو توڑنے، دستاویزی ثبوت جمع کرنے، انکار کے بیانیے کے خلاف جدوجہد کرنے، بائیکاٹ اور قابض اسرائیلی ریاست کے ہر سطح پر عالمی تنہائی کے لیے مضبوط عوامی و قانونی مہمات چلانے کی دعوت دیتا ہے تاکہ اس نسل کشی کے تمام ذمہ دار سیاسی و فوجی مجرموں اور ان کے ساتھ دینے والے ممالک و اداروں کو انصاف کے کٹہرے تک پہنچایا جا سکے۔
نارملائزیشن اور ابراہیمی معاہدوں کی دوٹوک نفی
’’عہد القدس‘‘ میں واضح طور پر کہا گیا کہ قابض اسرائیل کے ساتھ ہر طرح کی نارملائزیشن قومی اور اخلاقی اصولوں سے غداری ہے۔ دستاویز نے خبردار کیا کہ ابراہیمی معاہدے اس قابض ریاست کو خطے میں ضم کرنے کے لیے ایک خطرناک پردہ فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے عوامی و سرکاری تمام سطحوں پر قابض اسرائیل کے مکمل بائیکاٹ کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے کیونکہ نارملائزیشن فلسطینی کاز کو ختم کرنے اور اس کے مٹانے کی راہ ہموار کرتی ہے۔
اسیران کی آزادی اور حق واپسی
دستاویز میں کہا گیا کہ فلسطینی اسیران امت کا شجاع ترین دستہ ہیں اور قابض اسرائیل کی جانب سے ان پر ڈھائے جانے والے مظالم مجرمانہ ہیں جن کی روک تھام ضروری ہے۔
مزید یہ کہ عرب و اسلامی عوام کا حق واپسی کے مسئلے پر مکمل اتفاق ہے اور ہر وہ فلسطینی جسے زبردستی اپنی سرزمین سے نکالا گیا اس کے واپسی کے حق کی تائید کرنا عالمی فریضہ ہے۔ دستاویز نے دنیا بھر کی حکومتوں سے انروا کی معاونت جاری رکھنے اور اسے ختم کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کی اپیل کی۔
مزاحمت… ناقابل تنسیخ حق
دستاویز نے ایک بار پھر اس اصولی حقیقت پر مہر ثبت کی کہ فلسطینی قوم اور تمام عرب اقوام جنہیں قابض اسرائیلی حملوں کا سامنا ہے انہیں ہر شکل میں مزاحمت کا حق حاصل ہے۔ یہ مزاحمت ایک اعلیٰ اخلاقی قدر ہے اور اسے اختیار کرنے والے انسانیت کی بلند ترین مثال ہیں۔
صہیونیت بطور مجرمانہ نظریہ
دستاویز میں واضح کیا گیا کہ صہیونیت وہ فاشسٹ نظریہ ہے جس نے قتل عام، نسلی صفایا، جبری بے دخلی، بھوک، پیاس اور تشدد جیسے جرائم کو جنم دیا اور اپنے آغاز سے آج تک ان کا تسلسل برقرار رکھا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سنہ 1975 کے اقوام متحدہ کے تاریخی قرارداد 3379 کو دوبارہ فعال کیا جائے جس میں صہیونیت کو نسل پرستانہ نظریہ قرار دیا گیا تھا۔
آزادی تک عہد کی تجدید
دستاویز کے اختتام پر کہا گیا کہ القدس امت کی دائمی سمت اور قابض اسرائیل کے ساتھ اس کے طویل جدوجہد کا مرکز ہے۔ شہداء، زخمیوں اور اسیران کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ فلسطین کی آزادی اور اس کی ہر انچ سرزمین سے استعمار کے خاتمے تک عہد القدس باقی رہے گا اور امت کے دل، دماغ اور جدوجہد کی توجہ القدس پر مرکوز رہے گی۔