صابر کربلائی فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور ترجمان ہیں اور پاکستان میں فلسطین کاز کے لئے سر گرم عمل رہتے ہیں، پاکستان میں تحریک آزادی فلسطین کی جدو جہد میں ان کا نام نمایاں ہیں ، ماضی میں صابر کربلائی آئی ایس او پاکستان کے مختلف عہدوں پر بھی کام کرتے رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ صابر کربلائی ریجنل سطح پر قائم مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے لئے فورم بنام ’’Asian People Solidarity with Palestine‘‘کے بانی اراکین میں شمار ہوتے ہیں جبکہ دو سال قبلہ اول بیت المقدس کی طرف ہونے والے عالمی مارچ برائے آزادی بیت المقدس ک(Global March To Jerusalem)ی بین الاقوامی مرکزی کمیٹی کے اہم رکن بھی ہیں ۔صابر کربلائی فلسطینیوں کے حق واپسی کے عنوان سے عالمی تنظیم ’’Global Campagin to return to Palestine ‘‘کے بانی اراکین میں بھی شمار ہوتے ہیں۔حالیہ دنوں صابر کربلائی نے اپنے ایک خصوصی انٹر ویو میں ماہ مئی میں ’’یوم نکبہ‘‘ کی مناسبت سے ایک اہم ترین انٹر ویو دیا ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے مرکزی ترجمان اور سیکرٹری جنرل صابر کربلائی نے ایک انٹر ویو میں کہا ہے کہ فلسطین صرف اور صرف فلسطینیوں کا وطن ہے اور دنیا کی کوئی طاقت فلسطینیوں کو اپنے ہی وطن واپس لوٹنے سے نہیں روک سکتی۔انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں آج تحریک آزادی فلسطین کے لئے سر گرم عمل کارکنوں کا ایک ہی نعرہ ہے ’’ منزل فلسطین‘‘ اور یہ نعرہ اب صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ ہر اس مظلوم اور نہتے فلسطینی کا ہے جسے سنہ1948ء میں 15مئی کو ’’یوم نکبہ‘‘ کے روز سر زمین فلسطین سے بے دخل کیا گیا تھا۔
فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے مرکزی ترجمان صابر کربلائی کاکہنا تھا کہ جس طرح غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کو ایک ہی روز میں ان کے گھروں سے بے دخل کیا اورا س دن کو ’’یوم نکبہ ‘‘ کہا گیا ٹھیک اسی طرح آج 15مئی ’’یوم نکبہ‘‘کو دنیا بھر میں ’’یوم واپسی فلسطین‘‘ منایا جائے گااور دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی فلسطینیوں کے حق واپسی کی آواز بلند کی جائے گی۔
سوال: یوم نکبہ سے کیا مراد ہے؟ اسے کیوں منایا جاتا ہے؟
صابر کربلائی :یوم نکبہ سے مراد ’’بد ترین تباہی اور برباد ی کا دن‘‘ہے، یہ اصطلاح سر زمین فلسطین میں اس روز استعمال ہوئی کہ جس دن غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے انبیاء علیہم السلام کی سر زمین فلسطین پر اپنا ناجائز تسلط قائم کیا اور فلسطین میں بسنے والے لاکھوں انسانوں کو بے دردی سے قتل عام کا نشانہ بناتے ہوئے لاکھوں فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا۔
15مئی سنہ1948ء کی بات ہے کہ جب عالمی استعماری قوتوں امریکہ ، برطانیہ اور فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک کی ایماء پر فلسطین میں ایک غاصب اور ناجائز ریاست کا قیام وجود میں لایا گیا اور اس ریاست کو ’’اسرائیل ‘‘ کا نام دیا گیا، اس ریاست کے بنانے والوں اور اس کے قیام کے لئے استعماری قوتوں کے ساتھ مل کر جد وجہد کرنے والوں کا یہ نظریہ تھا کہ یہودی جو دنیا کی سب سے عظیم اور برتر قو م ہیں اور دنیا کے تمام وسائل پر انہی کا حق ہونا چاہئیے تو ان کے رہنے کے لئے بھی ایک ایسی الگ تھلگ جگہ یعنی ریاست ہونی چاہئیے جہاں وہ اپنی حکومت کا قیام عمل میں لا سکیں، اور اسی نظریے کی تکمیل سنہ1948ء میں 14مئی کو وقوع پذیر ہوئی اور پھر اگلے ہی روز ان تمام شدت پسند یہودیوں (صیہونیوں ) نے سر زمین فلسطین پر بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ ایسا بد ترین سلوک انجام دیا کہ تاریخ آج بھی شرمندہ ہے۔
سنہ1948ء کو 15مئی کے دن شدت پسند یہودیوں (صیہونیوں ) یا پھر اس طرح سمجھ لیجئے کہ صیہونی تحریک کے دہشت گرد وں نے پورے فلسطین میں ایک کہرام بپا کر دیا اور فلسطینیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کیا ، صیہونیوں کی ایک تنظیم جس ک نام ہگانہ ہے کا ذکر اس حوالے سے کافی اہم ہے کہ جس کے دہشتگردوں نے ہزاروں نہتے اور معصوم فلسطینیوں کو صرف اور صرف ایک ہی روز میں بد ترین مظالم کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔
ہگانہ کے دہشت گردوں نے مظلوم فلسطینیوں کو نہ صرف مہلک ہتھیاروں ، خنجروں اور تلواروں سے قتل کیا بلکہ اس دہشت گرد صیہونی تنظیم نے فوجیوں کے ساتھ مل کر فلسطین کے علاقوں میں پانی کی سپلائی لائنوں میں زہریلے مواد تک ملا دئیے تا کہ زہریلا پانی پی کر فلسطینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں، اور اس کام میں ہگانہ تنظیم کے دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی صیہون فوج کے اعلیٰ عہدیدار بھی ملوث رہے۔
15مئی سنہ1948ء کوفلسطین میں صیہونیوں کے ہاتھوں ہونے والی اس تباہی اور بربادی کو فلسطین کے باسیوں نے ’’نکبہ‘‘ کا نام دیا نکبہ یعنی ’’تباہی اور بد ترین بربادی‘‘ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں فلسطینی گذشتہ پینسٹھ برس سے پندرہ مئی کو ’’یوم نکبہ‘‘ کے عنوان سے مناتے ہیں یعنی ’’تباہی اور بربادی کا دن‘‘ کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔
سوال:غاصب صیہونی ریاست اسرائیل اس دن کو کس حیثیت سے مناتی ہے؟کیا آپ کے علم میں اس بارے میں کوئی بات ہے؟
صابر کربلائی : جی ہاں ! صیہونیوں نے اس دن کو اپنی آزادی اور اپنے وطن کے قیام کا دن قرار دے رکھا ہے اور اس دن کہ جس دن انہوں نے خو دہی اپنے ہاتھوں سے لاکھوں فلسطینیوں کو ظلم اور بربریت کا نشانہ بنایا تھا اس دن خوب جشن اور رنگ رلیاں منائی جاتی ہیں اور پورے قابض علاقے میں کہ جس کو اسرائیل کا نام دیا گیا ہے میں جشن اور رونق کا سماں ہوتا ہے ۔
سوال: مسلم امہ اس بارے میں کیا کردار ادا کر رہی ہے؟
صابر کربلائی: مسلم امہ روز اول سے اس عظیم خیانت کے خلاف ہے اور صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے ، بس ہماری بد قسمتی ہے کہ خطے میں موجود عرب ریاستوں نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہئیے تھا کیونکہ مسلم امہ کے قلب ’’فلسطین‘‘ پر اسرائیل نامی خنجر گھونپ دیا گیا اور ایک ہی روز یعنی 15مئی سنہ1948ء کو اسرائیلیوں نے فلسطینیوپر ایسے مظالم کا سلسلہ شروع کیا جس کا انجام ہزاروں فلسطینیوں کی موت کے ساتھ ہوا اور نتیجے میں سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو صرف ایک ہی دن میں فلسطین سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا اور اس طرح یہ لاکھوں فلسطینی بے کسی اور بے بسی کے عالم میں اپنے ہی وطن سے تارکین وطن ہونے کے بعد فلسطین کے پڑوسی ممالک شام، مصر ، لبنان اور اردن کی طرف رخ کر گئے اور عرب مسلم حکمران آج تک تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
سوال : فلسطین پر اسرائیلی تسلط کے حوالے سے کون سے ایسے ممالک اور حکومتیں ہیں جنہوں نے اسرائیل کے قیام کے لئے کردار ادا کیا ؟
صابر کربلائی:فلسطین پر صیہونی جارح ریاست اسرائیل کے غاصبانہ تسلط کی داستان تو کافی طویل ہے جو انجمن اقوام سے شروع ہو کر بعد میں اقوام متحدہ تک جا پہنچتی ہے لیکن اہم نقطہ یہ ہے کہ کس طرح سے عالمی سامراجی قوتوں امریکہ اور برطانیہ نے دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین کی طرف ہجرت کروائی اور یہودیوں کی شدت پسند تحریک صیہونیزم کے ذریعے فلسطین پر غاصبانہ تسلط کے صیہونی خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔سر زمین فلسطین پر اسرائیل کا وجود اور قیام کوئی ایک یا دو روز کی بات نہیں بلکہ اس کے لئے سنہ1919ء سے ہی صیہونیزم کے بانی اور عالمی سامراجی دہشت گرد حکومتیں منصوبہ بندی کر رہی تھیں اور مختلف اوقات میں مختلف طریقوں اور حیلے بہانوں کے ذریعے فلسطین پر اسرائیلی ریاست کے قیام کی کوششیں کی جا تی رہیں۔اور اس حوالے سے برطانیہ کی فلسطینیوں کی ساتھ خیانت نا قابل معافی ہے۔
سوال: فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے عنوان سے برطانیہ کے کردار پر روشنی ڈالنا پسند فرمائیں گے؟
صابر کربلائی: برطانوی سامراج کے وزیر خارجہ بالفور کے اعلامیہ کوصہیونی دہشت گردوں نے فلسطین میں ناجائز نسل پرست صہیونی ریاست قائم کرنے کے لئے ایک قانونی دلیل کے طور پر استعمال کیا۔ یہ اعلامیہ نومبر 1917ع میں جاری کیا گیا۔لیکن صہیونیوں نے انیسویں صدی میں ہی فلسطین پر قبضے کی منصوبہ بندی کرلی تھی۔اس سازش کے تحت نسل پرست یہودی یعنی صہیونی برطانوی سامراج کی فوج میں بھی شامل ہوئے۔ پہلی جنگ عظیم کی صف بندی میں دنیا کے بڑے ممالک دو حصوں میں تقسیم تھے۔ برطانوی اور فرانسیسی سامراج ،روس، بیلجیم ، اٹلی، جاپان، یونان، مونٹے نیگرواور سربیا پر مشتمل Alliesیعنی اتحادیوں کا مقابلہ سینٹرل پاورز یعنی مرکزی طاقتوں کے ساتھ تھا جن میں مسلمانوں کی مرکزی خلافت ترکی ، جرمنی اور آسٹریا ،ہنگری شامل تھے۔
اس دور میں پس پردہ جو سازشی معاہدے و خط و کتابت ہوئیں ، عالم اسلام اور خاص طور پر دنیائے عرب پر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں برطانوی ہائی کمشنر (یعنی سفیر) سر ہنری میک میہن نے ترک خلافت کے عرب گورنر برائے حجاز حسین بن علی جنہیں شریف مکہ بھی کہا جاتا تھا کے ساتھ خفیہ خط و کتابت میں وعدہ کیا تھا کہ اگر اتحادی ممالک جنگ جیت گئے تو ترک خلافت کے زیر حکومت عرب علاقے آزاد ہوجائیں گے۔
ایک جانب یہ عہد و پیمان کئے جارہے تھے تو دوسری جانب مئی 1916ع میں برطانوی سامراج کے اعلی سفارتکار سر مارک سائیکس اور بیروت میں فرانسیسی قونصلر فرینسواژارژپیکونے یہ طے کرلیا تھا کہ جنگ عظیم اول میں کامیابی کے بعد سلطنت عثمانیہ (یعنی ترک خلافت) کے مفتوحہ علاقوں کو برطانیہ ، فرانس اور روس آپس میں تقسیم کرلیں گے۔یہ اس نوعیت کا تیسرا راؤنڈ تھا ۔23نومبر 1915ع کو لندن میں پہلا راؤنڈہو اجہاں برطانوی ٹیم کی قیادت سر آرتھر نکولسن نے کی تھی ۔21دسمبر 1915ع کو وسرے راؤنڈ میں برطانوی وفد کی قیادت مارک سائیکس نے کی۔9مئی 1916ع کو لند ن میں تعینات فرانسیسی سفیر پال کیمبون نے برطانوی وزیر خارجہ سر ایڈورڈ گرے کو لکھے گئے خط میں اس مجوزہ تقسیم بندی کی تفصیلات بیان کیں۔16مئی 1916ع کو ایڈورڈ گرے نے جوابی خط میں اس کی توثیق کردی۔
سوال: سر زمین فلسطین پر ایک صیہونی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا، آپ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
صابر کربلائی : میں اس فعل کو عالمی برداری بالخصوص برطانیہ ، فرانس اور امریکہ سمیت یورپی ممالک کی درندگی کا منہ بولتا ثبوت قرار دیتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ دنیا کے یہ عالمی دہشت گرد ممالک اور حکومتیں ہیں کہ جنہوں نے مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کو تاراج کیا ہے، تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی،تاریخ میں دنیا کے اندر کئی ایک ایسے واقعات ہوں گے کہ جس میں ڈاکوؤں کی جانب سے لوٹ لئے جانے کا ذکر ملتا ہو گا ،یا پھر عالمی سطح پر کچھ ایسی چوریاں بھی ہوں گی کہ جس کا ذکر تاریخ میں موجود ہو گا لیکن یہ کیسی چوری اور ڈکیتی تھی کہ جس پر پوری دنیا خاموش تماشائی بنی رہی اور مظلوم فلسطینی عوام کو صیہونی درندوں کے رحم و کرم پر ہی رہے ، یوم نکبہ کے بعد منظر عام پر آنے والی رپورٹس میں لکھا گیا کہ یوم نکبہ کے روز جہاں مختلف نوعیت کے مظالم کا ارتکاب کیا گیا وہاں کئی ایک ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ صیہونیوں نے فلسطینیوں کو ان کے گھر خالی کرنے کا حکم دیا اور گھر چھوڑ کر جانے کا کہا تو فلسطینیوں نے اپنے گھر کو چھوڑنے سے انکار کر دیا جس کے بعد صیہونی دہشت گردوں نے گھر کے بڑو ں کو گھر سے نکا ل کر بچوں کو گھروں میں بند کر دیا اور پھر پورے گھروں کو یا تو مسمار کر دیا یا پھر زہریلے آتش گیرمادے کے ذریعے نذر آتش کر دیا گیا، اور اس طرح کے واقعات میں درجنوں نہیں سیکڑوں معصوم کم سن اور شیر خوار بچے صیہونی درندگی کا نشانہ بنے۔
سوال : ہولو کاسٹ سے متعلق آپ کا کیا کہنا ہے؟
صابر کربلائی : ہولو کاسٹ ایک جھوٹ پر مبنی افسانہ ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، ہولوکاسٹ کو صیہونیوں نے خود کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کے لئے ایک جواز بنا لیا ہے اور دنیا کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے خود کو مظلوم بنا کر پیش کر رہے ہیں، میں آپ سے ہی سوال کرتا ہوں کہ بتائیے، اگر فرض کر لیں کہ ہولو کاسٹ ہوا ہی ہے تو پھر کس جگہ ہوا اور کہا ں ہوا؟ کس نے کیا؟ کیوں کیا؟ یہ تمام سوالات منظر پر آتے ہیں، ہولوکاسٹ کے بار ے میں مشہور ہے کہ جرمنی میں اور یورپ میں ہوا اور کرنے والے نازی تھے اور ان کا سردار ہٹلر تھا جس نے یہودیوں کے ساتھ برا کیا، تو پھر دنیا بھر کے یہودیوں کو چاہئیے کہ وہ اپنی یہودی ریاست کا قیا م جرمنی میں کریں اور ہٹلر کے مظالم کا انتقام جرمن حکومت اور جرمنی سے لیا جانا چاہئیے نہ کہ فلسطین میں بسنے والے مظلوم انسانوں سے کہ جن کا دور دور تک یہودیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے کوئی تعلق نہیں (اگر وہ مظالم ڈھائے بھی گئے ہیں تو)۔
سوال: فلسطینی پندرہ مئی کو ’’یوم نکبہ ‘‘ منا رہے ہیں ، اس حوالے سے پاکستان میں کیا سرگرمیاں ہوں گی؟اور اس حوالے سے کوئی خاص بات جو آپ بتانا چاہتے ہوں؟
صابر کربلائی :دنیا بھر میں فلسطینی اس دن کو آج بھی ’’یوم نکبہ‘‘ کے عنوان سے منا رہے ہیں اور رواں برس بھی پندرہ مئی کو اس یوم کو منایا جائے گا لیکن اس مرتبہ منائے جانے کا انداز شاید کچھ تبدیل ہو رہا ہے کیونکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ شعورا ور آگہی میں اضافہ بھی بڑھ رہا ہے اور اب فلسطینیوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنے وطن واپس جائیں گے، کیونکہ فلسطین ،فلسطینیوں کا وطن ہے اور اس وطن پر کسی ایسی قوم کو حق حاصل نہیں کہ جسے دنیا کے دوسرے ممالک سے لا کر اس سرزمین پر قابض کر دیا گیاہو، جیسا کہ سنہ 1948ء اور اس سے قبل کیا گیا تھا، بہر حال فلسطینیوں کا فیصلہ ہے کہ وہ ہر صورت سر زمین فلسطین کو واپس لوٹیں گے، وہ تمام فلسطینی کہ جنہیں صیہونیوں نے ان کے وطن ، گھروں اور ان کی زمینوں اور کھیتوں سے بے دخل کر کے نکال باہر کیا ہے اوراب انہی فلسطینیو کا اعلان ہے کہ وہ اپنے وطن لوٹ رہے ہیں اور دو برس قبل کی بات ہے کہ فلسطینیوں نے ٹھیک یوم نکبہ کے روز ایک ایسی کوشش لبنان سے ملحقہ فلسطین کی
سرحد پر کی تھی کہ جہاں صیہونی افواج کا قبضہ ہے لیکن اس برس فلسطینیوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ ’’یوم نکبہ‘‘ کو ’’یوم واپسی ‘‘ کے طور پر منائیں گے اور ان کا ایک ہی نعرہ ہو گا ’’منزل فلسطین‘‘۔
جی ہاں ! ہمارا بھی نعرہ یہی ہے جو فلسطینیوں کا ہے، ’’منزل فلسطین‘‘ ’’یوم نکبہ یعنی یوم واپسی‘‘، دنیا بھر کے با ضمیروں کو چاہئیے کہ وہ فلسطینیوں کی اس مہم اور اس مقصد کو زیادہ سے زیادہ اپنی حمایت سے کامیاب بنانے کی کوشش کریں تاکہ فلسطین سے بے گھر کئے جانے والے لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے وطن واپس لے جانے میں مدد گار ثابت ہو سکے۔کیونکہ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے ، اور تمام وہ فلسطینی کہ جو دنیا کے کسی بھی ملک میں جلا وطنی کی زندگی گذار رہے ہیں فلسطین لوٹ آئیں اور اسی طرح یہ تمام شدت پسند یہودی (صیہونی) جس ملک سے بھی فلسطین لائے گئے تھے واپس اپنے ممالک کی طرف پلٹ جائیں ۔