کراچی ـ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
فلسطین کی پٹی غزہ میں اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جارحیت نے نہ صرف غزہ کی زمین کو ملبے میں بدل دیا بلکہ خطے کے کئی عرب ممالک کے کردار کو بھی بے نقاب کر دیا۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے قائد یحیٰ سنوار نے کیا خوب کہا تھا کہ غزہ کا معرکہ سب کو بے نقاب کر کے رکھ دے گا۔ آج سب بے نقاب ہو رہے ہیں۔ چاہے دوست ہوں وہ بھی سامنے آ رہے ہیں اور دشمنوں کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں چھپے ہوئے منافق بھی بے نقاب ہو رہے ہیں۔ اس مقالہ میں بھی ایسے ہی کردار کو واضح کیا گیا ہے جو اردن نے غزہ کی نسل کشی کے دوران انجام دیا یعنی منافقانہ اور دوہراکردار۔
غزہ کی پیٹھ پر خنجر گھونپنے والوں میں سے ایک اردن ہے جو ایک جانب خود کو فلسطینیوں کا ہمدرد اورامداد رسان ظاہر کرتا ہے، جبکہ دوسری جانب اسرائیل کے ساتھ اس کی فوجی اور انٹیلی جنس شراکت داری غزہ پر بمباری میں اس کے دوہرے کردار کو واضح کرتی ہے۔اکتوبر 2023سے اب تک جہاں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی کی ہے وہاں اردن بھی برابر کا شریک جرم رہاہے۔ اردن کے کردار پر عالمی سیاسی ماہرین نے یہاں تک کہا کہ دن میں امداد اور رات میں بمباری یعنی یہ اردان کا دوہرا معیار تھا۔
اردن نے جنگ کے دوران دنیا کے سامنے ایک انسانی ہمدرد ملک کا تاثر دینے کی کوشش کی۔اردن کی حکومت نے امدادی طیارے بھیجے، اسپتال قائم کیے، اور سرکاری میڈیا کے ذریعے فلسطینی عوام سے یکجہتی کے بیانات دئیے۔ لیکن ان ظاہری اقدامات کے پیچھے ایک سفارتی اور فوجی دوغلا پن پوشیدہ رہا، جسے مغربی میڈیا اور امریکی خفیہ رپورٹس نے رفتہ رفتہ بے نقاب کیا ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس اور خاص طور پرامریکی خفیہ رپورٹس نے اردن کا چہرہ اس طرح بے نقاب کیا ہے کہ جب اسرائیلی افواج غزہ پر اندھا دھند بمباری کر رہی تھیں، تو اردن کی فضائیہ نے متعدد مرتبہ غزہ اور اردن کی سرحدی فضائی حدود اسرائیلی جنگی طیاروں کے استعمال کے لیے کھلی رکھیں۔ امریکی سینٹ کام کے تحت ہونے والی کارروائیوں میں بھی اردنی فضائی اڈے استعمال کیے گئے۔صرف یہاں تک نہیں بلکہ اگر ایران پر اسرائیلی جارحیت کے بعد ایران کی جوابی کاروائیوں کا ذکر کیا جائے تو اس دوران بھی اردن کی فضائی حدود میں ایران کے جوابی میزائلوں کو اسرائیل کے دفاع کے لئے روکنے والا اردن ہی تھا۔ذرائع کے مطابق،اردن حکومت نے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ایک خاموش مفاہمت طے کی، جس کے تحت اردنی فضا کوہنگامی راستہ یا لازمی کوریڈور کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ۔ بظاہرعلاقائی سلامتی کے نام پر، مگر دراصل اسرائیلی جنگی حکمتِ عملی کے لیے اردن نے اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیا۔
وسری جانب، اردن کی سرزمین سے انسانی ہمدردی کے قافلے تو نکلے، لیکن اسی وقت امریکی طیارے اردنی اڈوں سے اڑان بھر کر مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی اتحادی کارروائیوں میں حصہ لیتے رہے۔ امریکی اڈےالازرق (Azraq Air Base) اورمفرّق کے قریب واقع تنصیبات کئی برسوں سے واشنگٹن کے زیرِ استعمال ہیں مگر غزہ جنگ کے دوران ان کی سرگرمیاں غیر معمولی حد تک بڑھ گئیں۔اردنی حکومت نے ان سرگرمیوں پر نہ تو کوئی تبصرہ کیا اور نہ ہی تردید کی، جس نے اردن کے موقف کو مزید مشکوک بنا دیا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اردن حکومت ایک ایسے وہرے توازن کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس میں وہ فلسطینی عوام کی ہمدردی کا تاثر قائم رکھتے ہوئے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ اپنے فوجی و اقتصادی مفادات بھی برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
اردن کے اندر عام عوام کی اکثریت فلسطینیوں کی بھرپور حمایت کرتی ہے، اور ہزاروں افراد نےدارلحکومت اور زرقا میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرے اور وادیِ عربہ معاہدے کو منسوخ کرے۔لیکن شاہ عبداللہ دوم کی حکومت نے ان مطالبات پر کوئی قدم نہیں اٹھایا، بلکہ احتجاج پر سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ سوشل میڈیا پر اسرائیل مخالف بیانیے کو محدود کیا گیا، اور کئی سرگرم کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ غزہ کے لئے امداد یا منافقت؟غزہ کے لیے اردن کی امداد کے اعلانات میں زیادہ تر سیاسی دکھاوا شامل رہا۔ اردنی فوج نے 2024 میں اعلان کیا کہ اس نے غزہ کے لیے 40 فضائی امدادی مشنز مکمل کیے ہیں۔ تاہم، آزاد ذرائع کے مطابق ان میں سے اکثر فضائی گرانے کے ناکام یا محدود اثرات والے مشن تھے جو محصور علاقے میں عوام تک حقیقی مدد پہنچانے میں ناکام رہے۔بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے نزدیک، اردن کا یہ رویہ امداد برائے عوام، اتحاد برائے اسرائیل کے مترادف ہے ۔ یعنی ایک طرف انسانی ہمدردی کے دعوے، دوسری طرف اسرائیل کی عسکری مدد میں خاموش شرکت۔
خلاصہ یہ ہے کہ اردن کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ یا فلسطینی عوام کے ساتھ غداری کی کوئی نئی تاریخ نہیں ہے بلکہ اس کا تسلسل سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے لئے چلائی جانے والی عرب قومی تحریک سے شروع ہوتا ہے او آج تک جاری ہے۔ اردن اور اسرائیل کے خفیہ تعلقات بھی کوئی نئی بات نہیں۔ سنہ1973ء میںشاہ حسین نے جنگِ یومِ کپور سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا مائیر کو شام اور مصر کی فوجی نقل و حرکت کی تفصیلی معلومات فراہم کی تھیں، جس سے عرب ممالک کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ یہ سلسلہ 1994ء کے وادی عربہ معاہدے سے مزید مضبوط ہوا جس نے اردن کو اسرائیل پرمعاشی و سلامتی انحصار میں مبتلا کر دیا۔اور یہی سلسلہ آج تک جاری ہے۔
بہر حال اردن کے اس کردار نے اردن کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔اردن نے غزہ جنگ کے دوران خود کو “فلسطینیوں کا دوست اورانسانی امداد دینے والا ملک ظاہر کیا، لیکن پسِ پردہ وہ امریکی اور اسرائیلی فوجی اتحاد کا حصہ بنا رہا۔ اس دوہرے کردار نے اردن کے عوام اور حکومت کے درمیان خلیج کو گہرا کیا، اور خطے میں اس کی غیر جانبداری کے تاثر کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ آج دنیا بھر میں اردن کے حکمران کے لئے لوگ غدار ابن غدار ابن غدار کا لقب استعمال کرتے ہیں۔