بدھ کے روز بیت المقدس کے مرکزی علاقے سلوان میں فلسطینیوں اور یہودی آبادکاروں کے درمیان جھڑپوں کے بعد جمعرات کو فلسطینی شہریوں اور قابض اسرائیلی فوج کے درمیان بھی جھڑپیں ہوئی ہیں. اطلاعات کے مطابق قابض فوج اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپیں مقبوضہ بیت المقدس کے شمال میں عیسویہ کے مقام پر صہیونی بلدیہ کے ہاتھوں فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کے تنازع پر ہوئیں، جبکہ سلوان کے مقام پر اسرائیلی فوج کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر اسرائیلی فوج نے وحشیانہ تشدد کیا ہے جب میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق کم از کم 15 افراد شدید زخمی ہو گئے ہیں. مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی فوج کے زیرانتظام بارڈر فورسز نے صہیونی بلدیہ کے ساتھ مل کر مقبوضہ بیت المقدس میں عیسویہ کے مقام پر فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری شروع کی. اس پر مشتعل مظاہرین جن میں خواتین اور بچے شامل تھے نے اسرائیلی فوج پر پتھر پھینکے. جواب میں قابض فوج نے اشک آور گیس، ربڑ کی گولیاں، لاٹھی چارج اور ہوائی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں. عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ صہیونی فوجیوں اور پولیس نے جائے وقوعہ کی طرف آنے والی فلسطینیوں کی ایمبولینسوں کو بھی روک دیا جس سے زخمی شہریوں کو اٹھا کر اسپتالوں میں منتقل کرنے میں بہت تاخیر ہوئی اور زخمی کئی گھنٹے تک سڑکوں پر تڑپتے رہے. ادھر دوسری جانب عینی شاہدین کے مطابق قابض فوج نے قدیم بیت المقدس میں سرایا کے مقام پر یتیم بچوں کے لیے قائم ایک اسکول پر دھاوا بول کر اس میں موجود ایک نوجوان کو گرفتار کر لیا ہے. اسکول پر حملے سے قبل قابض فوج کی بڑی تعداد نے اسکول کی عمارت کو گھیرے میں لے اس کی توڑپھوڑ کی. بعد ازاں اس کے اندر گھس کرایک نوجوان کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے. گرفتار کیے گئے نوجوان کے بارے میں اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ فوجیوں اور یہودی آبادکاروں کی گاڑیوں پر پتھراٶ کر رہا تھا