فلسطینی مزاحمتی جماعتوں کے عسکری ونگز کا کہنا ہے کہ مجاہدین کے خلاف ’’فتح‘‘ حکومت کی کارروائیاں خطرناک مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں جس سے مزاحمت کاروں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔ مغربی کنارے میں مزاحمتی جماعتوں اور ان کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کو مزید برداشت نہیں کیا جائیگا۔ فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی کنارے میں مزاحمت اور ا س کے حامیوں کی بہیمانہ پکڑ دھکڑ مہم انتہائی خطرناک ہو چکی ہے، اسرائیلی فوج اور انتہاء پسند یہودیوں کی جانب سے پورے مغربی کنارے میں بھیانک جرائم جاری رکھے جانے کے باوجود عباس ملیشیا ان کے ساتھ سکیورٹی تعاون جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ دوسری طرف وہ مزاحمت کو کچلنے کے لیے بے تاب دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح مصالحت کے لیے بلند و بانگ نعروں کے باوجود فتح حکومت کی ملیشیا مزاحمت کاروں کے خلاف کارروائیاں کر کے اپنے دعووں کی نفی کر رہی ہے۔ اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ترجمان ابوعبیدہ نے ’’مزاحمتی گروہوں‘‘ کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ فتح کی جانب سے مجاہدین اور مزاحمت کاروں کا فوجی عدالتوں کے سامنے ٹرائل اور پورے مغربی کنارے میں مزاحمت پسندوں کو اغوا کرنے کی مہم میں زبردست تیزی کر دی گئی ہے اور یہ سب ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب حال ہی میں غاصب یہودیوں نے بیت لحم میں مسجد انبیاء نذر آتش کی، اور اسرائیلی آرمی چیف آف سٹاف گابی اشکنزئی نے ملیشیا کی قیادت سے ملاقات کی ہے جس سے اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ عباس ملیشیا اسرائیلی فوج کی آلہ کار بن چکی ہے اور اس کا کام محض صہیونی فوج کی مشکل مہمات میں آسانی پیدا کرنا ہے۔ ابوعبیدہ نے مزید کہا کہ فلسطینی اتھارٹی نے بھی مزاحمت کاروں کو گرفتار کرنے ان کا عدالتی ٹرائل کرنے جیسی اسرائیلی روش اپنا لی ہے۔ فتح حکومت نے اسرائیلی فوج کی مشکلات کم کرنے کے لیے اپنی جیلوں کے دروازے کھول دیے ہیں، اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ کیا جا رہا ہے، صہیونی فوج کے بجائے عباس ملیشیا کی جانب سے مزاحمت کاروں کے اغوا سے اسرائیلی عقوبت خانوں میں موجود فلسطینی اسیران کی رہائی کا معاملہ بھی کٹھائی میں پڑ گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ فتح حکومت نے اسیران کے معاملے کے ساتھ خیانت کی ہے اور ان کے دکھ درد کو بیچ کر ان کے خلاف سازش کا حصہ بن گئی ہے۔ اسی وجہ سے اسرائیلی فوجیوں کو ہمارے اسیر اور اسیرات سے بدسلوکی اور توہین آمیز سلوک کی جرات مل گئی ہے جس کی تازہ مثال فلسطینی خاتون اسیر کے ساتھ توہین آمیز سلوک گزشتہ روز منظر عام پر آنے والی ویڈیو ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قوم کو دھوکہ دینے کی ان جارحانہ کارروائیوں پر صبر کی انتہاء ہو چکی ہم نے ایک طویل عرصے تک مصالحت کے لیے جدوجہد کی اور اپنے غصے کو قابو میں رکھا۔ تاہم آج ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم مزید خاموش نہیں رہ سکتے۔ فتح حکومت کے ظلم کی انتہاء نے ہمیں خاموشی توڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مصالحتی کوششوں میں مجاہدین کے خلاف کارروائیاں روکنے کا کوئی فیصلہ نہ ہوسکنے کی صورت میں کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ فتح کے خلاف ہماری کارروائیوں پر ہمیں ملامت کرے۔ ہم پورے مغربی کنارے میں ہر جگہ فتح کو نشانہ بنائیں گے۔ فتح اتھارٹی کی جیلوں میں تمام فلسطینی سیاسی اور مزاحمتی جماعتوں کے کارکنوں پر بہیمانہ تشدد کیا جا رہا ہے۔ ابھی ماضی قریب میں جہاد اسلامی کے رہنما شیخ خضر عزام نے بھوک ہڑتال کی ہے۔ عقوبت خانوں میں موجود بے گناہ فلسطینیوں کو دردناک تفتیشی مراحل سے گزارا جا رہا ہے اور فتح اتھارٹی نے اب ان کا عدالتی ٹرائل بھی شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے بالخصوص القسام بریگیڈ کے علاء ذیاب کو 20 سال قید اور عبد الفتاح شریم کو 12 سال اور ان کی بیوی کو ایک سال قید کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔