فلسطینی ماہر امور آثار قدیمہ اور “اوریئنٹ ہاٶس و مخطوطات” کے ڈائریکٹر خلیل تفکجی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکام فلسطینی اتھارٹی سے مذاکرات کی آڑ میں مقبوضہ بیت المقدس سے مسلمانوں کے تہذیبی ورثے کا نمونہ ختم کرنا چاہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ صہیونی ریاست نے ایک منظم منصوبے کے تحت صدر محمود عباس سے مذاکرات کے آغاز کے بعد سے مقدس شہر کے تاریخی تہذیبی ورثے کے خلاف سرگرمیوں میں اضافہ کر دیا ہے. انہوں نے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس میں حالیہ ایک مختصر عرصے کے دوران 32 ہزار یہودیوں کو آباد کیا گیا ہے جبکہ یہودی کالونیوں میں بڑی تعداد میں رہائشی مکانات تعمیر کیے گئے ہیں. ان خیالات کا اظہار خلیل تفکجی نے حال ہی میں مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو میں کیا. ان کا یہ انٹرویو تفصیل کے ساتھ اردو میں پیش کیا جا رہا ہے.
مرکز اطلاعات فلسطین: سب سے پہلے ہم مقبوضہ بیت المقدس میں صہیونی منصوبوں کے حجم، ان کی حقیقت اور اہداف کے بارے میں جاننا چاہیں گے. آپ کے خیال میں اسرائیل کا اصل ہدف کیا ہے؟ خلیل تفکجی:. مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیل کے یہودیت کے فروغ کے کئی مقاصد ہیں. صہیونی مسلمانوں اور فلسطینیوں کے اس مقدس شہر اپنا ایک “قومی شہر” کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قابض صہیونیوں نے سنہ 1967ء کی جنگ میں بیت المقدس پر قبضے کے بعد سے لگاتار اس میں یہودیوں کو بسانے کا سلسلہ جاری رکھا. اس کی تازہ مثال اسرائیل کا “30 ہزار پروگرام” کے نام سے موسوم کیا گیا منصوبہ ہے. اسرائیل ایک سازش کے تحت مقبوضہ بیت المقدس میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں یہودیوں کو آباد کرنے کے لیے کوشاں ہے. یہودی آبادی کے لیے تمام ضروری سہولیات مثلا سڑکوں، پلوں، سرنگوں، ریلوے لائنوں اور انفراسٹرکچر پرتوجہ دے رہا ہے. اسرائیل کے “پروگرام برائے 30 ہزار” کا اصل ہدف سنہ 2020ء تک مقبوضہ بیت المقدس کو مکمل طور پر یہودیت میں تبدیل کرنا ہے. اسرائیل اگلے 10 سال کے عرسے میں بیت المقدس میں 85 ہزار اقامت گاہوں اور رہائشی فلیٹس کی تیاری کا ہدف رکھتا ہے تاکہ شہر میں عرب اور فلسطینی آبادی کو یہودیوں کی نسبت اکثریت میں تبدیل کرکے اسے مسلمانوں کو اقلیت میں بدلا جا سکے. اسرائیل اس منصوبے کی تکمیل کے لیے صرف یہودی بستیوں کی تعمیر ہی کا سہارا نہیں لے رہا بلکہ بیت المقدس کے حقیقی اور اس کے وارث باشندوں کو وہاں سے نکل جانے پر مجبور کرنے کے لیے کئی دیگر ہتھکنڈوں کو بھی استعمال کر رہا ہے. انہی ہتھکنڈوں میں مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں نسلی امتیاز پر مبنی دیوار کی تعمیر، فلسطینیوں کی شہریت کی منسوخی، مختلف حیلوں بہانوں سے فلسطینیوں کی شہربدری اور فلسطینیوں کی املاک پر ناجائز قبضے جیسی کارروائیاں بھی شامل ہیں. شہرکو مکمل طور پر یہودی رنگ میں رنگنے کے لیے ناگزیر ہے کہ شہر کے چپے چپے پر یہودی عبادت گاہوں اور مذہبی مقامات تعمیر کیے جائیں. یہی وجہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کے مضافاتی مقامات پر جابجا یہودی معبد اور عبادت گاہیں تعمیر کی جا چکی ہیں، جبکہ کئی نئی عبادت گاہیں بھی زیر تعمیر ہیں. اس کی تازہ مثال مسجد اقصیٰ کے تاریخی دروازے” باب المغاربہ” کے قریب یہودی کنیسے کی تعمیر ہے. یہ عبادت گاہ کئی منازل پر مشتمل ہو گی جس کا مقصد مسجد اقصیی کے قریب یہودیوں کی زیادہ سے زیادہ موجودگی کو ہمہ وقت یقینی بنانا ہے.
مرکز اطلاعات فلسطین:. یہودی آبادکاری میں اضافے کی صورت میں آپ سمجھتے ہیں کہ قبلہ اول اور بیت المقدس کو مکمل طورپر گرائے جانے کا خدشہ موجود ہے؟ خلیل تفکجی:. جہاں تک مسجد اقصیٰ کی شہادت کا سوال ہے. یہودی اس مذموم اور خطرناک مقصد کے لیے سرگرم ہیں. اس سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اسرائیل مسجد اقصیٰ کے گرد زیرزمین سرنگوں کا سہارا لے رہا ہے. اب تک تین بڑی سرنگین دریافت کی جا چکی ہیں. پہلی سرنگ کا انکشاف سنہ 1996ء میں ہوا تھا، یہ مسجد اقصیٰ سے کچھ فاصلے پر تھی. دوسری سرنگ مسجد اقصیٰ کے نسبتا زیادہ قریب سلوان کے مقام سے مسجد اقصیٰ کی دیواروں کی طرف کھودی جاری رہے ہے اور تیسری سرنگ مسجد اقصیٰ کے باب العمود کے ساتھ ساتھ ہے . اس کےعلاوہ کچھ دیگر مقامات پر بھی کھدائیاں ہوئی ہیں جن سے مسجد اقصیٰ کی طرف جانے والے بعض راستوں زمین میں دھنس گئے ہیں. وقت کے ساتھ یہ خدشہ اپنی جگہ بدستوربڑھتا جا رہا ہے کہ یہودیوں کی طرف سے کی گئی کھدائیوں سے کسی بھی وقت قبلہ اول کا کچھ حصہ شہید ہو سکتا ہے. کسی بھی وقت قدرتی زلزلے کی صورت میں بھی مسجد اقصیٰ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے. اس کےعلاوہ مصنوعی دھماکے اور زمین میں لرزش پیدا کرنے کی کسی کوشش کے ذریعے مسجد اقصیٰ کو یہ سرنگیں نقصان پہنچا سکتی ہیں.
مرکز اطلاعات فلسیطن:.اسرائیل اور یہودیوں کی طرف سے مسجد اقصٰی کو درپیش خطرات کا انسداد کیوں کر ممکن ہے. اس ضمن میں فلسطینیوں، عرب ممالک اور عالم اسلام کی کیا ذمہ داریاں ہیں ؟ خلیل تفکجی:. مسجد اقصیٰ کو لاحق خطرات کے انسداد کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے. اس سلسلہ میں ہم نے عرب ممالک اور عالم اسلام کے سامنے واضح تجاویز رکھی ہیں تاکہ صہیونی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچنے سے روکا جا سکے. ہمارے ساتھ عالم اسلام کی طرف سے تعاون کے وعدے بھی ہوئے ہیں تاہم قول اور فعل میں عملاً فرق موجود ہے، کیونکہ زبانی وعدوں کی حد تک تعاون کی یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں تاہم اب تک کسی بھی برادر اسلامی یا عرب ملک کی طرف سے کچھ نہیں کیا گیا. جہاں تک مادی امداد کا سوال ہے گذشتہ برس اردن اور مراکش نے مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے فنڈز کے ساتھ بیت المقدس میں مدارس کے قیام کے لیے معاونت کی تھئ. فلسطینی اس وقت قبلہ اول کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں، انہیں عالمی سطح پر اسلامی دنیا کی طرف سے بھرپور امداد ملنی چاہیے. یہ امداد بیت المقدس میں تعلیمی اداروں کے قیام، اسپتالوں، ڈسپنسریوں، تہذیبی وثقافتی مراکز ، کتب خانوں اور دیگر مقاصد کے لیے ہونی چاہیے تاکہ یہودیوں کا اسی میدان میں مقابلہ کیا جا سکے۔بیت المقدس میں فلسطینی شہریوں کے 20 ہزار مکانات کی تعمیرو ترمیم کے لیے ہمیں لاکھوں کی رقوم درکار ہیں، جو کچھ امداد کی صورت میں فنڈز مل رہے ہیں وہ ناکافی ہی نہیں اپنی بنیادی ضروریات سے کے حوالے سے آٹے میں نمک کے برابر ہیں.
مرکز اطلاعات فلسطین:. اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ بیت المقدس صہیونی ریاست کا دارالحکومت ہے. صہیونیوں کے اس دعوے کا کیوں کر توڑ ممکن ہے ؟ خلیل تفکجی:.. یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسرائیل بیت المقدس کو اسی طرح صہیونی ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتا ہے جس طرح اس نے تل ابیب کو بنایا ہے. چونکہ اس کا مطمہ نظریہ ہےکہ وہ یہودی آبادی کو بڑھا کر القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے میں کامیابی حاصل کر لے گا، یہی وجہ ہے اس نے اسی ذریعے کو اختیار کیا ہوا ہے. بدقسمتی سے اس ضمن میں امریکا اور کئی دیگرعالمی طاقتوں کی طرف سے صہیونیوں کو حمایت بھی حاصل ہے. سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش اسرائیلی وزیراعظم اریئل شیرون کو اپنی حمایت کا کھل کریقین دلاچکے تھے. جہاں تک اسرائیل کے اس دعوے کی توڑ کی بات ہے، اس کے لیے صرف احتجاج ہی کافی نہیں بلکہ عالمی قوانین کے تحت کارروائی کی بھی ضرورت ہے. بیت المقدس کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 181 اب بھی موجود ہے. اسے فعال کرنے کی ضرورت ہے. اس کے علاوہ عالمی سطح پریہ بات عام ہونی چاہیے کہ اسرائیل ایک متنازعہ علاقے کو اپنی ریاست کا ابدی دارالحکومت بنانا چاہتا ہے، ایسے عالمی عدالتیں اور عالمی قان کو بھی حرکت میں لانا چاہئے.
مرکز اطلاعات فلسطین:.. فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اسرائیل کی یہودی آبادکاری کی کارروائیوں پر حکمت عملی کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ خلیل تفجکی:.. فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کے تحفظ کے لیے اقدامات حوصلہ شکن ہیں. عالمی سطح پر اس مسئلےکو اٹھانے کے لیے جتنی ذمہ داری فلسطینی اتھارٹی پرعائد ہوتی ہے اتنی کسی اور کی نہیں. لیکن فلسطینی اتھارٹی نے ہمیں مسجد اقصیٰ کے تحفظ اور بیت المقدس کی بعض دیگر تاریخی عمارات کی ترمیم و مرمت کے لیے صرف 10 ملین ریال فراہم کیے ہیں، جو نہ ہونے کے برابر ہیں.جب ہمارا دعویٰ ہے کہ القدس فلسطینی کا ابدی دارالحکومت اور عرب ممالک کا ثقافتی دارالحکومت ہے تو اس کے دفاع اور تحفظ کے لیے بھی اتنے ہی اقدامات کی ضرورت ہے.
مرکز اطلاعات فلسطین:.. فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات پر اصرار سے کیا اسرائیل کو فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری اور اپنے مذموم مقاصد کی ترویج کا موقع نہیں مل رہا. آپ اس پر کیا کہیں گے ؟ خلیل تفکجی:.. میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں جتنی یہودی آبادکاری فلسطینی اتھارٹی سے مذاکرات کے دور میں کی ہے اتنی اس کےعلاوہ نہیں کی. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل مذاکرات کی آڑ میں فلسطینی اتھارٹی کی زبان بندی سے بھرپور استفادہ کر رہا ہے. گذشتہ ایک مختصر عرصے میں بالخصوص جب سے فلسطینی انتظامیہ نے اسرائیل کےساتھ بے سود مذکرات کا سلسلہ شروع کیا مغربی کنارے میں 32 ہزار مکانات تعمیر کئے گئے ہیں. فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے یہ دعویٰ کہ وہ آزاد ریاست کے قیام کے لیے کوشاں ہے اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں رکھتا جب تک اسرائیل کو یہودی بستیوں کی تعمیر سے روکا نہیں جاتا. اس کے لیے ضروری ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ روکا جائے اور اپنے مطالبات واضح اور دو ٹوک انداز میں پیش کیے جائیں.
مرکز اطلاعات فلسطین:.. بیت المقدس اور یہودی آبادکاری کے مسئلے پر فلسطینی صدر محمود عباس نے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے. آپ کے خیال میں یہ مطالبہ اسرائیلی کارروائیوں کو روکنے کے لیے کافی ثابت ہوسکتا ہے ؟ خلیل تفکجی:.. القدس اور یہودی آبادکاری کے معاملے پرسلامتی کونسل کے اجلاس کے بلائے جانے کا مطالبہ بجا ضرور ہے تاہم اس کے لیے صرف زبانی کہہ دینا کافی نہیں عملا بھی بہت کچھ کرنا ہو گا. البتہ سلامتی کونسل کے اجلاس کے بلائے کی صورت میں بھی معاملہ اس وقت تک حل نہیں ہو گا جب تک امریکا کی اسرائیل کو جانب دارانہ حمایت حاصل رہے گی. یہ خدشہ موجود ہے کہ امریکا جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے القدس کےمعاملے پر اسرائیل کے حق میں ویٹو کردے گا. اس کی تازہ اور بہتر دلیل امریکی صدر براک اوباما کا موجودہ رویہ ہے. کچھ عرصہ قبل وہ یہودی بستیوں کی تعمیر کے پرزور مخالف تھے لیکن جب سے اسرائیل سے یہودی کالونیوں میں توسیع کا سلسلہ تیز کیا ہے براک اوباما نے بھی چُپ سادھ لی ہے.موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ اسرائیل پر ہرطر ف سے یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے جانے کے لیے دباٶ ڈالا جانا چاہیے.