مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں نے قابض اسرائیلی کنیسٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے سوموار 3 نومبر سنہ2025ء کو منظور کیے گئے اس خطرناک مجوزہ قانون پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جس کے تحت ان فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دی جائے گی جن پر کسی اسرائیلی کو قومیت کی بنیاد پر قتل کرنے کا الزام ہے۔ تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام قابض ریاست کی منظم نسل کشی اور اجتماعی قتل عام کی پالیسی کو قانونی تحفظ دینے کی ایک کھلی کوشش ہے جو صہیونی قانونی نظام کے اندر موجود گہرے نسلی امتیاز کو بے نقاب کرتی ہے۔
ان تنظیموں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ قانون کسی قانونی یا اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف فلسطینیوں کے منظم قتل کو قانون کی آڑ میں جائز قرار دینے کے لیے لایا جا رہا ہے، حالانکہ قابض اسرائیل کئی دہائیوں سے فلسطینی سرزمین پر عدالتی کارروائی کے بغیر ہی میدانی پھانسیاں دے رہا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس قانون کی بحث ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب قابض حکومت سات اکتوبر سنہ2023ء کے بعد انتقامی پالیسیوں کو تیز کرتے ہوئے خاص طور پر ان فلسطینی قیدیوں کو نشانہ بنا رہی ہے جنہیں غزہ کی حالیہ جنگ کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ قابض اسرائیل دنیا کے سامنے خود کو سزائے موت ختم کرنے والی ریاست کے طور پر پیش کرتا ہے حالانکہ اس نے 1989ء میں منظور ہونے والے بین الاقوامی عہدنامے کے اختیاری پروٹوکول پر دستخط نہیں کیے جس کے تحت رکن ممالک پر یہ سزا ختم کرنا لازم ہے۔
تنظیموں نے مزید بتایا کہ قابض اسرائیل نے برطانوی نوآبادیاتی دور کے قوانین سے سزائے موت کے احکامات وراثت میں لیے اور اب تک اسے برقرار رکھا ہے، جیسا کہ 1962ء میں نازی مجرم ایڈولف آئخ مین کو دی گئی پھانسی کی مثال موجود ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس نئے قانون کی سب سے خطرناک شق یہ ہے کہ اسے ماضی پر بھی لاگو کیا جا سکے گا جو بین الاقوامی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ یہ اقدام دراصل فلسطینی قیدیوں کے خلاف اجتماعی انتقام کی پالیسی کو مضبوط کرنے کی ایک شکل ہے، خاص طور پر ان اسیران کے خلاف جنہیں قابض اسرائیل فلسطینی مزاحمت کے “صفِ اول کے مجاہدین” قرار دیتا ہے۔
تنظیموں نے کہا کہ ماضی میں فلسطینیوں کے خلاف عدالتی سزائے موت نہ سنائے جانے کا مطلب انسانی وقار کا احترام نہیں بلکہ قابض اسرائیل کی سکیورٹی پالیسی تھی تاکہ قیدیوں سے معلومات حاصل کی جا سکیں یا انہیں طویل اذیت ناک حراست میں رکھ کر “سست موت” دی جا سکے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے نشاندہی کی کہ قابض اسرائیلی فورسز پہلے ہی مختلف انداز میں ماورائے عدالت قتل کی پالیسی پر عمل کر رہی ہیں، جن میں “ٹارگٹ کلنگز”، شہریوں پر قنص کے حملے، فوجی چوکیوں پر فائرنگ، مغربی کنارے اور غزہ میں پرامن احتجاجات پر گولیاں چلانا، اور جیلوں میں قیدیوں کو تشدد اور دانستہ طبی غفلت کے باعث ہلاک کرنا شامل ہے۔
تنظیموں نے زور دیا کہ یہ مجوزہ قانون سراسر نسلی امتیاز کو قانونی شکل دیتا ہے کیونکہ اس کا اطلاق صرف فلسطینیوں پر ہوگا جبکہ وہ صہیونی جو فلسطینیوں کا قتل کرتے ہیں، اس کے دائرے سے باہر رہیں گے۔
انسانی حقوق کے اداروں نے خبردار کیا کہ اس قانون کی منظوری ایک خطرناک نظیر قائم کرے گی اور قابض فورسز کی میدانی پھانسیوں کو قانونی حیثیت دے گی، جو فلسطینی عوام کے خلاف صہیونی جبر اور استعماری تسلط کی نئی لہر ثابت ہوگی۔
تنظیموں نے عالمی برادری، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، اور جنیوا کنونشن کے دستخط کنندہ ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اس قانون کو روکنے کے لیے فوری طور پر متحرک ہوں اور قابض اسرائیل کو ماورائے عدالت قتل کے اپنے طویل ریکارڈ پر جواب دہ ٹھہرائیں تاکہ فلسطینی عوام کو اس منظم صہیونی قتل و غارت سے محفوظ رکھا جا سکے۔
یہ مشترکہ بیان مرکز الميزان، فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق، الحق، الضمیر برائے انسانی حقوق اور ہیومن رائٹس کی آزادانہ کمیشن کے اشتراک سے جاری کیا گیا۔