Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

صیہونیزم

فلسطینی علاقوں میں مذہبی پابندیاں، اذان پر بھی قدغن

(مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قابض اسرائیل کے نام نہاد وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر کی قیادت میں نسل پرستانہ جماعت یہودی پاور ایک نئی قانون سازی کی مہم کو مسلسل آگے بڑھا رہی ہے جس کا مقصد سنہ 1948ء میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مساجد سے اذان کی آواز پر پابندی عائد کرنا ہے۔ اس اقدام نے قابض ریاست کے اندر شدید بحث چھیڑ دی ہے اور اسے فلسطینیوں کے مذہبی اور ثقافتی وجود کو نشانہ بنانے والی پالیسیوں کا تسلسل قرار دیا جا رہا ہے۔

اعلان کے مطابق ایتمار بن گویر کنیسٹ میں قومی سکیورٹی کمیٹی کے سربراہ کے ساتھ مل کر ایک ایسے مسودہ قانون کی تیاری میں مصروف ہے جو اس اصول پر مبنی ہے کہ پابندی اصل قاعدہ ہو گی اور اجازت محض استثنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر عمومی طور پر پابندی عائد کی جائے گی اور صرف خصوصی اجازت نامے کے بعد ہی اس کی اجازت دی جا سکے گی۔

اس مجوزہ قانون کے تحت اجازت نامے کی درخواستوں کو متعدد شرائط سے مشروط کیا جائے گا جن میں آواز کی شدت ،اس میں کمی کے ذرائع ،مسجد کا محل وقوع اور رہائشی علاقوں سے اس کی قربت شامل ہے اس کے علاوہ نام نہاد متعلقہ اداروں کے مطابق آبادی پر آواز کے اثرات کا اندازہ بھی لگایا جائے گا۔

مسودہ قانون پولیس کو فوری اور وسیع اختیارات فراہم کرتا ہے جس کے تحت کسی بھی پولیس اہلکار کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ شرائط کی خلاف ورزی کے شبے پر لاؤڈ اسپیکر بند کرانے کا مطالبہ کرے اور اگر خلاف ورزی جاری رہے تو مکمل صوتی نظام ضبط کیا جا سکے گا۔

قانون میں مبینہ طور پر بازدارانہ مقاصد کے لیے بھاری مالی جرمانے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اجازت کے بغیر لاؤڈ اسپیکر چلانے کی صورت میں جرمانہ 50 ہزار شیکل یعنی تقریباً 15 ہزار ڈالر تک ہو گا جبکہ دی گئی اجازت کی شرائط کی خلاف ورزی پر 10 ہزار شیکل یعنی تقریباً 3100 ڈالر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

یہودی پاور پارٹی کے مطابق یہ نیا مسودہ قانون اذان کو نشانہ بنانے والے گذشتہ قوانین سے مختلف ہے جو صرف مخصوص اوقات میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو محدود کرتے تھے اور جن میں محدود نفاذ کے ساتھ کچھ استثنائی گنجائش موجود تھی۔

انتہا پسند صہیونی جماعت کا کہنا ہے کہ موجودہ مسودہ ایک منظم لائسنسنگ اور نگرانی کا نظام قائم کرتا ہے جس میں چلانے والی ذمہ دار اتھارٹی پر واضح ذاتی ذمہ داری عائد کی جاتی ہے اور نفاذ اور سزا کے اختیارات کو نمایاں طور پر مضبوط کیا جاتا ہے۔ مسودہ قانون میں جرمانوں کی رقوم کو نام نہاد عوامی منصوبوں کی طرف منتقل کرنے کا ایک خصوصی طریقہ کار بھی شامل ہے۔

قانون کی وضاحت میں اس نسل پرستانہ جماعت نے دعویٰ کیا ہے کہ شور ایک صحت کے لیے نقصان دہ عنصر ہے اور یہ کہ گذشتہ نفاذی مہمات کے باوجود آج تک ایسا کوئی قانون موجود نہیں جو اس مظہر سے نمٹنے کے لیے مؤثر آلات فراہم کرے۔

مسودے کے متن کے مطابق یہ قانون ایک واضح ضابطہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے جس میں عمومی پابندی، صریح اجازت، آپریشن کا ذمہ دار مقرر کرنا اور بھاری جرمانے شامل ہیں تاکہ مؤثر اور واضح نفاذ کے ذریعے آبادی کے لیے سکون اور معیار زندگی کی بحالی کا دعویٰ کیا جا سکے۔

یہ مجوزہ قانون ایک منظم نسل پرستانہ پالیسی کے تناظر میں سامنے آیا ہے جو سنہ 1948ء میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے باشندوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور ایک انتہا پسند منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد فلسطینی عوامی میدان پر سکیورٹی بالادستی مسلط کرنا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan