فلسطینی صدر محمود عباس اور وزیر اعظم سلام فیاض کے تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں۔ اسرائیل سے شائع ہونے والے عبرانی اخبار “ہارٹز” نے رام اللہ میں ایوان صدر کے ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ تعلقات کی کشیدگی سلام فیاض کا اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرنا بتایا جاتا ہے۔
اخبار کے مطابق “فتح” کے دونوں رہ نماوں کے درمیان پرانی مخاصمت ہے تاہم اس کے باوجود انہوں نے اپنے تعلقات نارمل رکھے۔ دونوں رہ نما ذرائع ابلاغ میں ایک دوسرے کے خلاف تنقید سے بھی گریزاں رہے۔
حال ہی میں محمود عباس کے قریبی ذرائع نے سلام فیاض سے ان کے تعلقات میں کشیدگی پر پہلی مرتبہ میڈیا میں لب کشائی کی ہے۔ اس غیر معمولی پیش رفت کا پس منظر گذشتہ دنوں سلام فیاض کی طرف سے “ہارٹز” ہی کو دیا جانے والا ایک انٹرویو ہے جس میں انہوں نے محمود عباس کی ہدایت کے علی الرغم سنہ 2011ء میں یکطرفہ طور پر فلسطینی ریاست کے اعلان کی بات کی تھی۔ ابو مازن یکطرفہ طور پر فلسطینی ریاست قائم کرنے کے خلاف ہیں۔
محمود عباس، جن کی اپنی آئینی مدت صدارت گذشتہ برس نو جنوری کو ختم ہو گئی تھی، اور ان کے دیگر ہمنواوں نے سلام فیاض کے اعلان کو پسند نہیں کیا۔ انہوں نے اسے وزیر اعظم کی جانب سے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز قرار دیا۔ ابو مازن کیمپ کا خیال ہے کہ سلام فیاض نے یکطرفہ طور پر فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کر کے فلسطینی اتھارٹی کے صدر پر اپنا ایجنڈا تھونپنے کی کوشش کی ہے، جبکہ حقیقیت میں وہ حکومت کے ایک ملازم ہیں اور ایسا اعلان کرنے کے مجاز نہیں۔
یاد رہے کہ محمود عباس اسرائیلی چینل ٹو کو ایک انٹرویو میں دو ٹوک انداز میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ وہ یکطرفہ طور پر فلسطینی ریاست قائم کرنے کے حق میں نہیں۔ انہوں نے یہ بات زور دیکر کہی کہ وہ اسرائیل کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں کی مکمل پاسداری کریں گے۔
اخبار نے نوٹ کیا کہ سلام فیاض نے اپنے حالیہ چند تصرفات میں عوامی رنگ اختیار کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لئے رائے عامہ کے جائزوں کا بھی سہارا لیا۔ انہوں نے صدر محمود عباس سے الگ اور آزاد رائے کے اظہار کے لئے متعدد بنایات بھی جاری کئے۔ ادھر فتح کے سینئر ارکان الزام عائد کر رہے ہیں سلام فیاض عملی طور پر انتخابی مہم چلا رہے اور ایسے سرگرمیوں میں شرکت کرنا چاہتے ہیں کہ جنہیں زیادہ سے میڈیا کوریج ملے۔