دنیا بھر میں آٹھ مارچ کو ایک طرف دنیا بھر میں عالمی ویمن ڈے منایا جارہا ہے تو دوسری جانب اسرائیلی جیلوں میں موجود 40 کے لگ بھگ فلسطینی خواتین میں سے ایک خاتون اسیری کے گیارہویں سال میں داخل ہو رہی ہیں۔ اس روز اسیرہ ایمان محمد حسن کو اپنے بچوں سے علیحدہ ہوئے دس سال مکمل ہو جائیں گے۔ فلسطینی وزارت امور اسیران کی میڈیا ڈائریکٹر ریاض اشقر کے مطابق اسیرہ غزاوی کو 08 مارچ 2001ء کو حراست میں لیا گیا تھا، انہیں مجموعی طور پر تیرہ برس کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ غزاوی ان چار فلسطینی اسیرہ خواتین میں شامل ہیں جن کے شوہروں کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ غزاوی کے شوہر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ ان کی گرفتاری کے پانچ ماہ بعد ان کے خاوند شاھر برکات عشہ کو اغوا کر کے 18 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ غزاوی کے دو بچے 12 سالہ سماح اور 13 سالہ جھاد اپنی دادی کے پاس رہتے ہیں۔ عالمی ویمن ڈے کے موقع پر دس سالہ قید مکمل کرنے والی غزاوی کو اس عرصے میں شدید تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑا ہے، اسرائیلی جیل انتظامیہ کی ناروا سلوک اور ان کی صحت سے لاپرواہی نے غزاوی کو سانس کی بندش، سر اور معدے کی مختلف بیماریوں اور جوڑوں کے درد کی مریضہ ہیں۔ انہیں گرفتاری کے بعد دو ماہ تک رملہ میں قید تنہائی میں رکھا گیا تھا جس سے ان کی صحت پر انتہائی برے ثرات مرتب ہوئے۔ بہ قول ریاض اشقر اسرائیلی انتظامیہ دس سالہ جدائی کے باوجود انہیں اپنے شوہر سے ملاقات کی اجازت نہیں دے رہی، حالانکہ اسرائیلی قانون ہر چھ ماہ بعد اس طرح کی ملاقات کی اجازت دیتا ہے۔ ملاقات کے روز غزاوی کو جیل کی سلاخوں سے پیچھے سے اپنے دونوں بچوں سے ملنے کا موقع اگرچہ دیا جاتا ہے لیکن اپنے پیاروں کی محبت میں غزاوی کے آنسو ابھی تھمنے نہیں پاتے کے 40 منٹ کا یہ مختصر عرصہ گزر جاتا ہے۔ اس انتہائی مختصر عرصے میں وہ اپنے بچوں کو باقاعدگی سے اسکول جانے اور والدین کی گرفتاری کے عرصے میں اپنی دادی کا خیال رکھنے کی نصیحت کرتی ہے۔ اس موقع پر غزاوی سلاخوں کے پیچھے سے بچوں کو چاکلیٹ دے کر ۔ چند لحظوں کے لیے ہی سہی ۔ اپنا ماں کا کردار ادا کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ پہلے سے شفقت پدری اور ماں کی محبت سے محروم ان بچوں کی نفسیات پر تباہ کن منفی اثرات اس وقت پڑتا ہے جب انہیں اپنے والدین سے ملنے کے لیے جیلوں کے دھکے کھانا پڑتے ہیں۔ مخصوص دن کی انتہائی مختصر مدت کے موثر استعمال کی خاطر ایک بچہ اپنے والد کو ملتا ہے تو دوسرا صرف اپنی ماں سے ہی مل پاتا ہے۔ یہ جیلوں کی سلاخیں، مجرموں کی ہتھکڑیاں، لمبی لائنیں، فوجی بوٹوں کی آہٹیں ہیں جن میں یہ بچے پل کر بڑھے ہو رہے ہیں جس کے ان کے معصوم اذہان پر کیا اثرات مرتب ہونگے اس کا اندازہ لگانا کسی کے لیے مشکل نہیں۔ ریاض اشقر کا مزید کہنا تھا کہ لگتا ہے آٹھ مارچ کو ساری دنیا کی خواتین کے حقوق کی بات کرنے والی عالمی برادری کو صہیونی عقوبت خانوں میں موجود 37 اسیرہ خواتین کسی کو نظر نہیں آرہیں۔ تمام انسانی حقوق اور عزت و تکریم سے محروم خواتین کی بات کرنے والا کوئی نظر نہیں آرہا۔ یہ خواتین انتہائی انسانیت سوز مظالم کا شکار ہیں، ان خواتین کو اپنے بچوں سے ملنے سے بھی روکا جارہا ہے۔ اس موقع پر فلسطینی وزارت کے ترجمان نے خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی تمام عالمی تنظیموں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اپنی سزا کے دو تہائی سے زیادہ عرصہ جیل میں کاٹ لینے والی اسیرہ غزاوی کو رہا کرنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ بڑھایا جائے،