Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

مقبوضہ بیت المقدس

فلسطینی اتھارٹی کے وظائف میں بدعنوانی کے خلاف قیدیوں کے اہل خانہ کا مظاہرہ

مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے فلسطینی اسیران کے مالی وظائف بند کرنے اور انہیں ادارہ بحالی کے ذریعے مشروط سماجی امداد کے نظام میں منتقل کرنے کے فیصلے نے اسیران کے اہل خانہ میں شدید غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ اہل خانہ نے اس اقدام کو اسیران کی عزت نفس اور ان کی قربانیوں پر براہ راست حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ فلسطین کے اہم ترین قومی مسئلے کو ایک سماجی اور امدادی فائل میں محدود کرنے کی کوشش ہے۔

اسیران کے اہل خانہ نے اپنے بیٹوں کو غربت یا محتاجی کے زمرے میں شامل کرنے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسیران وہ مجاہدین ہیں جنہوں نے اپنے قومی موقف کی قیمت اپنی آزادی دے کر چکائی اور یہ فیصلہ اسیران اور ان کے خاندانوں سے ان کی جدوجہد کی حیثیت چھیننے اور ان کی قربانیوں کو ایک تنگ سماجی دائرے میں قید کرنے کے مترادف ہے جو ان کی تاریخ کے شایان شان نہیں۔

اسی تناظر میں القدس کی سرگرم کارکن نسرین ابو غریبیہ جو اسیر فادی ابو غریبیہ کی والدہ ہیں اور جنہیں دو سال اور نو ماہ سے قید رکھا گیا ہے اور جن پر 15 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے نے فیصلے پر شدید ناراضی کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ان اولین اسیران کے اہل خانہ میں شامل ہیں جن پر ان کے بیٹوں کی تنخواہیں ایسے فیصلوں کے ذریعے بند کی گئیں جنہیں انہوں نے من مانا قرار دیا۔

نسرین ابو غریبیہ نے الجزیرہ لائیو سے گفتگو میں کہا کہ یہ فیصلہ قومی اور عوامی سطح پر ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسیران کے اہل خانہ باوقار ہیں اور ان کے اصول اٹل ہیں اور اسیران کی تنخواہیں لینا ایک ثابت شدہ قومی حق ہے جس میں کسی کا احسان شامل نہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ اسیران نے تنخواہوں کے لیے جدوجہد نہیں کی مگر یہ ان کا قومی حق ہے۔ ان کا کہنا تھا ہم وطن کے دفاع کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تاکہ کوئی معاوضہ وصول کریں۔ انہوں نے اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی کہ مالی مراعات پہلے ہی محدود تھیں اور اسیر اور اس کے خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی تھیں جبکہ ان کی بندش نے مشکل معاشی حالات میں اسیران کے متعدد خاندانوں کو کسی بھی آمدن سے محروم کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تنخواہیں بند کرنے کے فیصلے کے خلاف عوامی تحریک اس ناانصافی کے خلاف فطری ردعمل ہے جو اسیران اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ روا رکھی گئی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ادارہ تمکین کو کون چلا رہا ہے یہ فیصلے کیوں کیے گئے اور کیا ان فیصلوں کے ذمہ دار اسیران اور ان کے خاندانوں کی تکالیف سے آگاہ ہیں۔

مسلسل بحران

دوسری جانب فلسطینی اسیران کے امور کی نگرانی کرنے والی اعلیٰ کمیٹی کے سربراہ امین شومان نے بتایا کہ قیادت کی مختلف سطحوں پر سنجیدہ کوششیں جاری ہیں۔ ان میں فتح کی مرکزی کمیٹی، انقلابی کونسل ،علاقائی تنظیمیں اور قومی اور اسلامی قوتیں شامل ہیں تاکہ شہداء اسیران اور زخمیوں کے اہل خانہ کی مراعات مسلسل تیسرے ماہ بھی ادا نہ ہونے کے بحران کا حل نکالا جا سکے۔

امین شومان نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ مسئلہ ایک قومی ذمہ داری ہے جو ہر فلسطینی عہدیدار پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے ادارہ تمکین کی جانب سے ایسے فارم استعمال کرنے پر تنقید کی جن میں شہداء اسیران اور زخمیوں کے اہل خانہ کو کثیر الجہتی غربت کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ ان کے بقول یہ درجہ بندی ان کی قربانیوں اور جدوجہد کی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ انہوں نے صف اول کی قیادت سے فوری اقدام کا مطالبہ کیا تاکہ بحران ختم ہو اور معاملہ اپنی قومی بنیاد پر واپس لایا جا سکے۔

انہوں نے اسیران کے اداروں کی جانب سے رابطوں اور عملی اقدامات کے تسلسل کی بھی توثیق کی تاکہ تنخواہوں کی بحالی یقینی بنائی جا سکے جو ان کے بقول اس طبقے کے شایان شان ہے جس نے اپنی قوم کی عزت اور آزادی کے لیے سب کچھ قربان کر دیا۔

اسی سلسلے میں اسیر اسماعیل محلیس کی والدہ انتصار محلیس نے بھی اسیران کے مسئلے کو سماجی امداد کے منطق سے دیکھنے کو قطعی طور پر مسترد کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی اسیر کوئی بھکاری نہیں بلکہ وہ مجاہد ہے جس نے اپنی آزادی اور عمر کے سال قربان کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسیران اور شہداء کو سماجی خدمت کے خانے میں بند نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہوں نے فلسطین کے لیے اپنی سب سے قیمتی متاع پیش کی ہے۔

انتصار محلیس نے زور دیا کہ اسیران کے اہل خانہ نہ تو ادارہ تمکین چاہتے ہیں اور نہ ہی مشروط امداد بلکہ وہ اپنے بیٹوں کے حقوق اور قومی قضیے سے وابستہ رہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسیران کا مسئلہ ایک جامع قومی مسئلہ ہے جسے امدادی معیارات یا سماجی شرائط کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔

واضح رہے کہ ادارہ تمکین ایک سرکاری ادارہ ہے جو سماجی تحفظ کے پروگراموں کے انتظام کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ تاہم اسیران اور شہداء کی مراعات کو غربت اور سماجی حالت سے مشروط کرنے کے فیصلے نے فلسطینی عوام میں شدید غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف مطالبات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کہ تنخواہیں بحال کی جائیں کیونکہ یہ ایک غیر مشروط اور ناقابل سودے بازی قومی حق ہیں اور اسیران شہداء اور زخمیوں کی قربانیوں کے اعتراف کا لازمی حصہ ہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan