مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
غزہ کے وسطی علاقے دير البلح کی ایک تنگ سی گلی میں قائم بے گھر فلسطینیوں کے ایک گنجان کیمپ میں ایک گھر کے اوپر لگائی گئی ٹین کی چھوٹی سی کوٹھڑی ہے۔ باہر سے عام سی دکھائی دینے والی یہ کوٹھڑی اندر داخل ہوتے ہی ایک ایسے خاکوں کا روپ دھار لیتی ہے جس کی دیواروں پر رنگوں کی چیخیں، درد کے نقش اور وہ لرزہ خیز یادیں بکھری ہیں جو اہل فلسطین دو برس کی جنگ میں اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔
اسی چھوٹی سی جگہ میں فلسطینی فنکار محمد المغاری جو جامعہ الاقصیٰ کے کالج آف فائن آرٹس کے گریجویٹ ہیں غزہ کے عوام کی اذیت ناک زندگی کو ایسے مناظر میں قید کر رہے ہیں جنہیں انہوں نے بمباری بھوک اور جبری بے دخلی کے بیچ تخلیق کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ”میں نے کیمپوں میں لوگوں کے درمیان رہ کر ان کی تکلیف کو بہت قریب سے دیکھا۔ بس وہیں سے میں نے طے کیا کہ غزہ کے ہر درد کو رنگوں میں ڈھالوں“۔
نسل کشی کی علامتیں
خاکوں کی دیواروں پر لٹکی متعدد پینٹنگز غزہ کی روزمرہ زندگی اور قابض اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کے ہر پہلو کو بیان کرتی ہیں۔ ایک تصویر میں تھکے ماندے چہرے والا بچہ خالی برتن اٹھائے کھڑا ہے جو اس ہولناک قحط کو ظاہر کرتا ہے جس نے غزہ کے بچوں اور عورتوں کے جسموں کو ہڈیوں کاڈھانچہ بنا دیا۔
ایک اور تصویر میں ایک عورت ملبے کے ڈھیر سے راستہ نکال رہی ہے اور ساتھ ہی پانی کی گیلن گھسیٹ رہی ہے۔ قریب ہی ایک بوڑھا شخص کیمپ کی گلیوں میں بھوک سے کانپتے قدموں کے ساتھ کچھ کھانے کی تلاش میں مارا مارا پھرتا دکھائی دیتا ہے۔
ایک اور گوشے میں سر پر زخم لیے ایک زخمی بچہ ہے۔ دوسری پینٹنگ بارش اور بمباری کے درمیان گر جانے والے خیمے کی دنیا دکھاتی ہے۔ تیسری تصویر اس بدائی تندور کی ہے جس پر لکڑی جلا کر روٹی پکائی جا رہی ہے کیونکہ ایندھن کی بو تک میسر نہیں۔
یہ چھوٹی سی کوٹھڑی محمد المغاری کے ان فن پاروں سے بھری ہے جنہیں وہ ملکی اور عالمی نمائشوں میں پیش کر چکے ہیں۔ ان میں تھکن بھوک اور بے بسی سے چور چہروں کی داستانیں ہیں۔ کھانے کی تلاش میں لگی طویل قطاریں ہیں۔ دور دراز سے پانی لانے کی کٹھن مہمات ہیں۔ بھوک سے نڈھال بچے ہیں۔ خون اور مٹی سے اَٹے خیمے ہیں اور وہ شہر ہیں جو کبھی زندگی سے بھرے تھے مگر آج ملبے کے ڈھیر ہیں۔
دو سالہ جنگ میں اہل فلسطین کو پانی، کھانے اور دواؤں کی شدید قلت کا سامنا رہا۔ زندہ رہنے کے لیے لوگوں نے درختوں کے پتے تک چبائے اور جانوروں کا چارہ کھایا۔
گذشتہ اگست میں عالمی ادارے “مبادرہ التصنيف المرحلي للأمن الغذائي” نے اعلان کیا کہ شہر غزہ میں قحط واقعی ہو چکا ہے اور اس کے اثرات دير البلح اور خان یونس تک پھیلنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔
جبری بے دخلی کا پہلا گواہ
خاکوں کی ایک دیوار پر المغاری نے ’’سید الصبر‘‘ کے عنوان سے ایک یادگار پینٹنگ آویزاں کی ہے۔ اس میں منظر کے مرکزی حصے میں ایک گدھا دکھایا گیا ہے جو اس جنگ اور جبری ہجرت کے دوران صبر کا ساتھی اور واحد ذریعہ نقل و حمل ثابت ہوا جس کی پشت پر لوگوں کا ہر اثاثہ اور امدادی سامان لادا جاتا رہا۔
محمد المغاری کا کہنا ہے کہ ان کی تخلیقات میں خیمہ ایک اہم علامت کے طور پر بار بار نظر آتا ہے کیونکہ یہ نکسہ کے زخم کا استعارہ ہے۔ وہ کہتے ہیں
کہ’’میں نے خیمہ اس لیے بنایا کہ یہ سنہ 1948ء کی پہلی جبری بے دخلی کا گواہ ہے۔ آج تاریخ پھر پلٹ کر ہمیں وہی دُکھ دکھا رہی ہے۔ نئے خیمے، پرانے زخم، وہی بے وطنی۔‘‘
وہ بتاتے ہیں کہ ان کا مقصد اس جنگ کی انسانی یادداشت کو محفوظ کرنا ہے۔ بمباری کے لمحوں سے لے کر روزمرہ زندگی کی اذیت ناک تفصیلات تک۔ خاص طور پر وہ خیمے جو پہلی بار بارش ہونے پر ہی اپنے باسیوں پر گر پڑے حالانکہ جنگ بندی کو ایک ماہ سے زائد گزر چکا ہے۔
فنکار کہتے ہیں کہ ’’جنگ نے میرے فن کا رخ پوری طرح بدل دیا۔ پہلے میں فلسطینی ورثہ اور قدرتی حسن کو موضوع بناتا تھا مگر جنگ نے ہر رنگ بدل دیا۔ اب میری ہر تصویر میں غزہ کے لوگوں کی چیخیں ہیں اور ان کا درد… تاکہ دنیا تک ان کی پکار پہنچ سکے‘‘۔
جنگ کے ختم ہوئے ایک ماہ سے زیادہ گزر چکا، مگر زندگی بدلی نہ حالات۔ لوگ اب بھی پھٹے پرانے خیموں میں ٹھٹھرتے ہیں۔ پہلی بارش میں ہزاروں خیمے ڈوب گئے اور تکلیفیں بڑھ گئیں۔
دو برسوں کے دوران قابض اسرائیل کی نسل کشی نے 24 لاکھ فلسطینیوں کی زندگی کو جہنم بنا دیا۔ زندگی کی بنیادی سہولتیں ناپید ہیں، خدمات تک رسائی تقریباً ناممکن ہو چکی ہے، کیونکہ قابض فوج 90 فیصد شہری ڈھانچا تباہ کر چکی ہے۔