روسی صدر ڈیمتری میدویدوف نے اپنے دور روزہ دورہ مشرق وسطیٰ کے دوران فلسطین سے واپس اردن روانہ ہو گئے ہیں. ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے بنیادی حقوق اور ان کی آزادی کے بارے میں ماسکو اپنی پالیسی پر قائم ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جائے گی. بدھ کے روز رام اللہ میں فلسطینی صدرمحمود عباس سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں روسی صدرنے کہا کہ وہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی غیرقانونی سرگرمیوں کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ صہیونی پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں. روسی صدر نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ایسے اقدامات سے سختی سے گریز کرے جو خطے میں قیام امن کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو سکتے ہوں. مسٹر ڈیمتری نے کہا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو وہ فلسطینیوں کا بنیادی حق سمجھتے ہیں اور فلسطینیوں کے آزادی سمیت تمام بنیادی مطالبات کی حمایت جاری رکھے گا. روسی صدر فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے ملاقات کے بعد سیدھے اردن روانہ ہو گئے جہاں انہیں اردنی بادشاہ شاہ عبداللہ دوم سے ملاقات کرنا تھی. خیال رہے کہ روسی صدر کا فلسطین کا یہ پہلا اور کسی بھی عالمی شخصیت کا واحد ایسا دورہ ہے جس میں وہ صرف فلسطین تک رہے اور اسرائیل کا دورہ نہیں کیا. حالانکہ کوئی بھی عالمی شخصیت مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران اسرائیلی قیاد سے ملنا فرض عین سمجھتی ہے. ادھر دوسری جانب اسرائیلی اور روسی اخبارات نے مسٹرمیڈویدوف کے دورہ فلسطین میں اسرائیلی قیادت سے ملاقات کو نظرانداز کرنے پرایک نئی بحث شروع کی ہے. اسرائیلی میڈیا نے روسی صدر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بعض مخصوص عناصر کی بلیک میلنگ کا شکار ہوئے ہیں. خود روسی میڈیا صدر کے اس طرزعمل کو ایک اور پہلو سے پیش کر رہا ہے. روسی اخبارات کے مطابق صدر میدویدوف نے صرف فلسطینی اتھارٹی کی قیادت سے ملاقات کے بعد اردن کا قصد کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ ماسکو اور واشنگٹن میں یہی بنیادی فرق ہے، کیونکہ امریکی حکام اپنے دورے کا آغاز اسرائیل سے کرتے ہیں اور مناسب سمجھا توکچھ دیر فلسطینی قیادت سے بھی ملاقات کر لیتے ہیں.