انتہاء پسند اور متعصب صہیونی وزیر خارجہ نے اویگڈور لیبرمین نے اپنے نام نہاد ’’ مسئلے کے حل کے منصوبے‘‘ کے مطابق فلسطینیوں کو سنہ 1948 ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے نکالنے کی تجویز دی ہے، دائیں بازو کے خیالات کے حامل لیبرمین نے اپنی تجویز میں اراضی کے تبادلے کا خیال بھی پیش کیا ہے۔ دوسری جانب فلسطین کے کٹھ پتلی غیر آئینی صدر محمود عباس نے بھی اس تجویز سے اصولی اتفاق کر لیا ہے۔ اس تجویز کے مطابق سنہ 1948 ء کے مقبوضہ علاقوں کے فلسطینیوں کو ایک نئی فلسطینی ریاست میں جانا ہو گا جہاں ان کو نئی فلسطینی ریاست کی شناخت دی جائے گی ۔ لیبرمین نے صہیونی اخبار یروشلم پوسٹ کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں واضح کیا ہے کہ ان کا منصوبہ 1948 ء کے مقبوضہ علاقوں کے رہائشیوں کو ہجرت پر مجبور کرنے یا ان کے گھروں کو مسمار کرنے کا تقاضہ نہیں کرتا اس منصوبے کے مطابق محض وہ حد بندیاں کی گئی ہیں جو ہماری جمہوریت میں پہلے نہیں تھیں۔ ان کے بہ قول کہ اس منصوبے کے تحت اسرائیل میں بسنے والے عربوں کو فلسطینی شناخت مل جائے گی۔ لیبرمین نے ’’ مسئلے کے حل کے لیے میرا منصوبہ‘‘ کے عنوان سے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل پر 1967 ء کی سرحدات کو تسلیم کرنے کا عالمی دباؤ ہے، اس دباؤ کی کوئی قانونی بنیاد نہیں، فلسطینیوں کی جانب سے طلب کردہ بہت سی اراضی خالی کر دینے سے اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہو گا، بلکہ اس کے بعد یہ مسئلہ لازمی طور پر ان سرحدات سے آگے اسرائیل کی جانب منتقل ہو جائے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری آزاد اور اسرائیل کے اندر ہی ایک دوسری فلسطینی ریاست کا قیام چاہتی ہے جبکہ میرا ہدف عرب اور یہودیوں کے مابین ایسی سیاسی تقسیم ہے جو ہمیشہ کے لیے امن وسلامتی کے قیام کا باعث بن سکے، یہ ایسی سیاسی تقسیم ہو جس میں دونوں فریقوں کو حکومت کا اختیار ہو۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ہمیشہ کے لیے منصفانہ حل کے لیے ضروری ہے کہ اراضی کا تبادلہ کر کے دو الگ الگ خود مختار ریاستیں قائم کر دی جائیں، ان میں ایک اسرائیلی یہودی ریاست ہو جبکہ دوسری عرب فلسطینی ریاست، انہوں نے کہا کہ اس منصوبے سے دونوں ملکوں میں بسنے والی اقلیتیوں کا مکمل شہری حقوق کے ساتھ رہنے کا حق بھی باطل نہیں ہو گا۔