اقوام متحدہ میں خلاف قانون قتل عام سے متعلق خصوصی نامہ نگار اور انسانی حقوق کمیٹی کے رکن “فلیپ السٹن” نے کہا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے ” فریڈم فلوٹیلا ” پر فوجی کارروائی سے متعلق تحقیقات غیر جانب دارانہ اور شفاف نہیں ہوسکتیں. عالمی برادری اگر واقعے کے حقائق جاننا چاہتی ہے تو اسے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے نو عالمی رضاکاروں کے حوالے سے مکمل طور پر آزادانہ تحقیقات کرانا ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل یک طرفہ طور پر کسی بھی صورت میں آزادانہ تحقیقات نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کی تحقیقات کو عالمی سطح پر معتبر قرار دیا جا سکتا ہے۔ جمعہ کے روز نیویارک میں فلیپ السٹن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کے غزہ کے لیےامداد لے جانے والے بیڑے پر حملے سے متعلق تحقیقات کے کئی اہم تقاضے ہیں. جب تک وہ تقاضے اور شرائط پوری نہیں ہوں گی اس وقت تک تحقیقات کو عالمی معیار کے مطابق شفاف اور غیر جانب دارانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ فریڈم فلوٹیلا پر حملے کی آزادانہ تحقیقات ناگزیر ہیں اور تحقیقاتی ٹیم کے لیے ضروری ہے کہ وہ مکمل طور پر کسی قسم کے سیاسی دباؤ سے آزاد ہو اور تحقیقات کے دوران اسرائیلی فوج کے حملے کی تصاویر اور اس کی ویڈیو فوٹیج سے بھی استفادہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان مذکورہ تجاویز پرعمل درآمد کر لیا جائے تو امدادی جہاز پر حملے کا انسانی حقوق سے متعلق یہ معالمہ آسانی سے حل ہو سکتا ہے۔ فلیپ نے مزید کہا کہ فریڈم فلو ٹیلا پر حملے کی تحقیقات کے آغاز سے قبل اقوام متحدہ میں ماضی میں آزادانہ سطح پر ہونے والی تحقیقات اور اس سلسلے میں سلامتی کونسل کے تحقیقاتی معیارات اور اصولوں کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ انسانی حقوق کے مندوب کی جانب سے یہ بیان اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون کی طرف سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوان سے ٹیلیفونک بات چیت کے ایک ہفتے بعد سامنے آیا ہے۔ بان کی مون نے اسرائیلی اور ترک وزراء اعظم سے بات چیت میں فریڈم فلو ٹیلا کے واقع کی تحقیقات کے لیے مختلف پہلوؤں پر غور کیا تھا۔