اسرائیلی وزیردفاع ایہود باراک نے اعتراف کیا ہے کہ اکتیس مئی کو عالمی سمندر میں غزہ کے لیے امدادی سامان لے کر آنے والے ترکی کے بحری جہازوں کے قافلے فریڈم فلوٹیلا پر حملے سے دنیا بھر میں اسرائیلی شہرت کو دھچکا لگا ہے. مقبوضہ بیت المقدس میں اقوام متحدہ کی فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کی تحقیقاتی کمیٹی کے روبرو بیان دیتے ہوئے صہیونی وزیردفاع کا کہنا تھا کہ فلوٹیلا پر حملے کے بعد ہمیں پوری دنیا میں نہ صرف سخت تنقید کا سامنا ہے بلکہ عدم تعاون کی کیفیت ہے. انہوں نے کہا کہ فلوٹیلا پر حملہ اسرائیل کے مفاد اور دفاع میں کیا گیا کیونکہ امدادی جہاز ایک منظم اشتتعال انگیزی تھی اور اس کو روکنا اسرائیل کی ذمہ داری تھی. ایہودباراک نے کہا کہ امدادی جہازوں پر حملے کے بعد پڑوسی مسلمان ملک ترکی کےساتھ ان کے تعلقات کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا تاہم وہ تل ابیب اور انقرہ کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے مشکل فیصلے کرنے کے لیے بھی تیار ہیں. اسرائیلی وزیردفاع نے فریڈم فلوٹیلا کے جہازوں پر حملے میں ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ داری آرمی چیف جنرل گابی اشکنازی پرعائد کی اور کہا کہ آرمی چیف نے ہمیں بتایا کہ اگرچہ امدادی جہازوں پر حملہ اور اس کے نتائج منفی ہوں گے تاہم ہمیں یہ کرنا ہو گا جس کے بعد ہم نے فوجی کارروائی کی اجازت دی. بے گناہ شہریوں کی ہلاکت سے متعلق ایہودباراک نے کہا کہ حکومت نے فوج کو امدادی جہازوں کو اپنے قبضے میں لینے کا کہا تھا انہیں کسی پر گولی چلانے کے احکامات نہیں تھے، تاہم فوج نے اپنے دفاع کے لیے گولی چلانا ضروری سمجھا اس کی ذمہ داری آرمی چیف پرعائد ہوتی ہے. ایہود باراک کے بیان سے دو روز قبل اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو بھی تحقیقاتی کمیٹی کے روبر پیش ہوئے تھے.ان کا کہنا تھا کہ امدادی جہازوں پر حملہ اسرائیلی دفاع کے لیے ضروری تھا، تاہم انہوں نے امدادی کارکنوں کی ہلاکتوں کو فوج کی غلطی تسلیم کیا تھا.