Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Uncategorized

فریڈم فلوٹیلا پر حملہ اور ہولوکاسٹ کا ڈھکوسلا

palestine_foundation_pakistan_gaza-boat-aid-convoy-freedom-flotilla-attacked

اسرائیل عالمی استعماری طاقتوں کی مدد سے 1948ء میں قائم ہوا۔صیہونی قیام اسرائیل سے برسوں قبل فلسطینیوں کی اراضی پر قبضہ کرتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں مقبوضہ علاقوں میں بس گئے تھے،جبکہ اس سے قبل فلسطین میں یہودیوں کی تعداد بہت کم تھی۔دنیا کے مختلف علاقوں کے یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرانے میں برطانیہ،امریکا اور روس سمیت مختلف سامراجی ملکوں نے اہم کردار ادا کیا۔گزشتہ چھ عشروں سے اسرائیل نے مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کے لیے مسلسل خطرات پیدا کر کے ان ممالک کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے۔ فلسطین پر قبضہ اور اس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینیوں کی ہجرت 1967ء اور 1973ء کی عرب اسرائیل جنگیں،لبنان پر یلغار اور جنوبی لبنان پر قبضہ،فلسطینی تحریک کو کچلنے کے لیے کی جانی والی سفاکانہ کارروائیاں،فلسطینی رہنماﺅں کا قتل،فلسطینی کیمپوں میں قتل عام،فلسطینی بستیوں پر حملے،یہودی بستیوں کی توسیع،دیوار حائل کی تعمیر،2008ء کے اواخر میں غزہ پٹی پر حملہ اور اس علاقے کا اقتصادی محاصرہ جو ابھی تک جاری ہے،یہ سب صیہونی حکومت کی سیاہ تاریخ کے بھیانک باب ہیں اور گزشتہ دنوں غزہ کے محصور عوام کے لیے امدادی سامان لے جانے والے کاروان فریڈم فلوٹیلا پر حملہ اسرائیل کا تازہ ترین جرم ہے،جس کے نتیجے میں 20 افراد شہید اور 60 زخمی ہوئے۔ اسرائیل علاقے میں عدم استحکام اور خوف و ہراس پیدا کرتا رہتا ہے۔ان تمام باتوں کا مقصد علاقے میں صیہونی حکومت کی بالادستی اور سامراجی مفادات کا تحفظ ہے،اسرائیل کو مجرمانہ کارروائیاں انجام دینے میں عالمی طاقتوں خاص طور پر امریکا کی پشت پناہی حاصل ہے۔امریکا کی طرف سے اسرائیل کی بے دریغ حمایت کی دو اہم وجوہات ہیں: 1- فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک خاص طور پر انتفاضہ کے مقابلے میں اسرائیل کی بے بسی اور مایوسی،فلسطینیوں کی مسلسل جدوجہد اور حزب اللہ و حماس کی ثابت قدمی کے نتیجے میں اسرائیلی عوام ملک میں بدامنی اور بے چینی کا شکار ہیں،چنانچہ بہت سے یہودی اسرائیل چھوڑ کر یورپی ملکوں اور امریکا کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔2006ء میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ میں اسرائیل کی ناکامی کے بعد یہودیوں کی ہجرت میں تیزی آئی ہے۔دوسری طرف اسرائیل عالمی معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عسکریت کے خول سے نکل کر اقتصادی ترقی و پیش رفت کی راہ پر گامزن ہونا چاہتا ہے،وہ علاقے کی اقتصادی طاقت میں تبدیل ہونے اور مشرق وسطیٰ کی منڈی پر قبضے کا خواب دیکھ رہا ہے،جس کے ذریعے 26 کروڑ سے زیادہ عرب آبادی پر اقتصادی طور پر اپنی گرفت مضبوط کرناچاہتا ہے۔ 2-امریکا جان چکا ہے کہ اسرائیل کی بے جا حمایت مشرق وسطیٰ کے ممالک میں امریکا کی مقبولیت میں کمی اور عوام کی طرف سے نفرت کے اظہار کا سبب بن رہی ہے،دوسری طرف اپنے ملکی مفادات کو صیہونی مقاصد کی خاطر داﺅ پر لگانے سے خود امریکی عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ان حالات میں عظیم مشرق وسطیٰ کی تشکیل کے لیے امریکی عزائم شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتے۔لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ اسرائیل 1967ء کی سرحدوں پر واپس جائے،تاکہ مشرق وسطیٰ کی نفع بخش منڈی پر تسلط حاصل کر سکے۔مبصرین کی رائے میں جارج بش لاٹھی اٹھا کر کھلم کھلا اسرائیل کا دفاع کرتے تھے،جبکہ اوباما نے لاٹھی کو تو چھپا رکھا ہے،لیکن وہ بظاہر ہاتھ میں پھول لے کر اندر سے اسرائیل کے مخالفین پر شدت سے وار کرنا چاہتے ہیں۔ اوباما نے سلامتی کونسل میں اسرائیل کے حق میں امریکا کی طرف سے سب سے زیادہ ویٹو استعمال کرنے کا دفاع کیا ہے،جو دیگر مستقل ارکان کے ویٹو کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔امریکا کی اسرائیل نوازی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صیہونی لابی کے مخالفین کو عقوبتوں سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے،ان میں امریکی کانگریس کے سابق رکن جیمز ٹریفیکنٹ کا نام لیا جا سکتا ہے،جن کو صیہونی لابی کی مخالفت کے جرم میں 7 سال جیل کی سزا ہوئی۔ٹریفیکنٹ کہتے ہیں: ”ایک غیرملکی لیڈر ایریل شیرون نے 2001ء میں کہا : ”امریکا پر ہم یہودیوں کا کنٹرول ہے“ حکومت اور میڈیا کے افراد میں سے کسی نے بھی اس بات کی مخالفت نہیں کی۔یہ اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ اسرائیل کو امریکا کی حکومت،تجارت اور ذرائع ابلاغ پر کنٹرول حاصل ہے۔ایپک امریکی پالیسیوں کو مرتب کرتا ہے اور اس نے امریکا کو ایسے تنازعات میں الجھا دیا ہے،جن سے امریکا کو قومی سطح پر کسی قسم کا مفاد حاصل نہیں اور اگر کوئی فائدہ ہے تو بہت ناچیز ہے۔“ امریکا میں ہولوکاسٹ کی یاد میں ایک میوزیم قائم ہے،ہولوکاسٹ جرمن نازیوں کے ہاتھوں 60 لاکھ یہودیوں کو گیس کی بھٹیوں میں ہلاک کرنے کا ڈھکوسلا ہے،جبکہ امریکا میں حقیقی طور پر یورپی امریکیوں کے ہاتھوں مقامی باشندوں کے قتل عام پر مبنی ہولوکاسٹ کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ امریکی دانشور وارڈ چرچل لکھتے ہیں کہ ”تہذیبی مہم کے دوران کرہ ارض کہ مغربی حصے میں یورپ والوں نے تباہی مچا دی تھی۔اس کے علاوہ ٹیکساس میں ایف بی آئی کے ذریعے ڈیویڈین گروہ کے افراد کو آگ لگا کر جلانے کے واقعے کو امریکی ہولوکاسٹ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے،جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے حکم پر انجام پایا ہے اور قرائن و شواہد اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کوئی بھول چوک کا نتیجہ نہیں،بلکہ براہ راست کلنٹن کے احکامات کے ذریعے انجام پایا ہے،جس کی کسی قسم کی توجیہ بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے۔“ واضح رہے کہ اسرائیل کا قیام 1948ء میں ہولوکاسٹ کے ڈھکوسلے کو سامنے رکھ کر عمل میں لایا گیا،جب کہ اس مسئلے سے فلسطین کا کوئی تعلق نہیں ہے،اس کے باوجود یہاں کے مسلمان اور عیسائی آبادی کو صیہونی ظلم و ستم کا تختہ مشق بننا پڑ رہا ہے۔نازی جرمن کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام کے واقعات اگر پیش آئے ہیں تو ان کی سزا جرمنوں کو بھگتنا چاہیے،فلسطینی عربوں سے اس کا کیا تعلق ہے؟دوسرے الفاظ میں غاصب اسرائیلی حکومت کو فلسطین کے بجائے جرمنی میں قائم ہونا چاہیے تھا۔صیہونی ریاست مقبوضہ فلسطین کے علاوہ فلسطینی سرحدوں سے باہر فلسطین کی حامی حریت پسند قوتوں کو کچلنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔بیروت۔جنوب لبنان اور گولان کی بلندیوں میں کیے جانے والے حملوں کے علاوہ اس سال غزہ کے محصور عوام کے لیے امدادی سامان لے جانے والا کاروان فریڈم فلوٹیلا پرحملہ اس کی ایک تازہ مثال ہے۔جس میں 20 غیرفلسطینی شہید اور 60 زخمی ہوئے۔ امریکی دانشور جیمز پیٹریاس نے لکھا ہے کہ ”یہ حملہ امریکا کی مرضی کے بغیر انجام پایا ہو گا۔“ سوچنے کی بات یہ ہے کہ صیہونی ضرورت پڑنے پر خود امریکیوں کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔پیٹریاس نے فریڈم فلوٹیلا پر حملے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ”اسرائیلی فوج نے اس سے پہلے بھی سمندر میں مہم جوئی کی تھی۔8 جون 1968ء کو اسرائیل کے 2 جنگی طیاروں نے امریکا کے ایک جاسوسی بحری جہاز کو جس کا نام یو ایسی لبرٹی تھا،بین الاقوامی سمندری حدود میں ہدف قرار دیا۔اس حملہ میں 34 امریکی میرینز ہلاک اور 172 زخمی ہوئے۔“ پیٹریاس آگے چل کر لکھتے ہیں: ”اس وقت کے امریکی صدر نیکسن نے جن کے اسرائیل کے ساتھ گہرے تعلقات تھے،لبرٹی جہاز کی مدد کے لیے جانے والے طیاروں کی واپسی کا حکم دیا اور اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو دھمکی دی کہ اگر اسرائیلی حملے کے حقائق سے پردہ ہٹانے کی کوشش کی گئی تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔“ ظاہر ہے جب امریکا نے اپنے بحری جہاز پر صیہونی فورسز کے حملے کے حقائق کو چھپایا ہے،تو فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی فوج کے حملے کے لیے جواز پیش کرنا تھا،چنانچہ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا ”فریڈم فلوٹیلا پر حملہ اسرائیل کا دفاعی حق تھا۔“ جب کہ یہ کاروان جو ترکی کے شہر استنبول سے چلا تھا،غزہ پہنچنے سے قبل بین الاقوامی سمندری حدود میں اسرائیلی درندوں کا نشانہ بنا،اس پر پُرامن اور انسانی حقوق کے حامی افراد سوار تھے،جو جہازوں پر غزہ کے باشندوں کے لیے کھانے پینے کی اشیاء اور امدادی سامان کے ساتھ سفر کر رہے تھے اور روانگی سے قبل ترک حکام نے کلیئرنس دی تھی کہ ان میں کسی قسم کا ہتھیار موجود نہیں ہے،لیکن اسرائیل نے یہ الزام بھی لگایا کہ امدادی سامان کی آڑ میں ان جہازوں میں بھی اسلحہ لے جایا جا رہا تھا۔ “روزنامہ جسارت”

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan