مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
اسرائیلی کنیسٹ کے عمومی اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ غزہ کی جنگ کے اختتام سے متعلق “بیس نکاتی منصوبے” کو اپنانے کے فیصلے کی منظوری دے دی۔
یہ ووٹنگ ایسے وقت میں ہوئی جب حکومتی اتحاد کی جماعتوں کے ارکان کی اکثریت اجلاس میں شریک ہی نہیں تھی جن میں خود وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو بھی شامل تھے۔ مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہ پڑا اور قرارداد کو بآسانی منظور کر لیا گیا۔ یہ مسودہ اپوزیشن لیڈر یائیر لپیڈ نے پیش کیا تھا۔
لپیڈ کا کہنا تھا کہ “پوری کنیسٹ نے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا ہے کہ انہوں نے یہ منصوبہ پیش کیا جس کی بنیاد پر قیدیوں کی واپسی ممکن ہوئی جنگ رکی اور زندگی معمول پر لوٹ رہی ہے”۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے پر اس سے قبل کسی بھی سرکاری فورم میں نہ کیبنٹ میں نہ حکومت میں نہ ہی خارجہ اور سکیورٹی کمیٹی یا کنسٹ کے عام اجلاس میں کوئی ووٹنگ ہوئی تھی۔
اب یہ قرارداد تفصیلی غور کے لیے خارجہ اور سکیورٹی کمیٹی کو بھیجی جائے گی۔
گذشتہ ہفتے اسرائیلی اپوزیشن کے ذرائع نے اشارہ دیا تھا کہ ٹرمپ کے منصوبے پر ووٹنگ بنجمن نیتن یاھو کو سخت سیاسی مخمصے میں دھکیل سکتی ہے۔ اگر وہ اس کی حمایت کرتے ہیں تو دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں بدک سکتی ہیں کیونکہ منصوبے میں فلسطینی اسیران کی رہائی غزہ میں ایک بین الاقوامی فورس کی تعیناتی اور مستقبل کی فلسطینی ریاست کے امکانات جیسے نکات شامل ہیں۔ جبکہ اگر نیتن یاھو اس کی مخالفت کرتے ہیں تو یہ صدر ٹرمپ کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ تصور ہوگا۔
لپیڈ نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ اس تجویز کو کنیسٹ کے سامنے لائیں گے اور امریکی دستاویز کو جنگ کے اختتام کا واحد واضح راستہ قرار دیتے ہوئے اسے اپنانے کا مطالبہ کریں گے۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی بھرپور حمایت دہراتے ہوئے کہا کہ “پوری اسرائیلی قوم جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلیوں کی رہائی کے لیے ان کی بہادر قیادت کی شکر گزار ہے”۔