مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
فلسطینی صحافیوں کے تحفظ کے مرکز نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں قابض اسرائیل کی مسلسل پالیسیاں میڈیا بیانیے کو کنٹرول کرنے میں براہ راست کردار ادا کر رہی ہیں۔ غیر ملکی صحافیوں کے داخلے پر پابندی اور میدان میں کام کرنے والے فلسطینی صحافیوں کو نشانہ بنانا ایسی حکمت عملی ہے جس نے غزہ کو معاصر تنازعات میں صحافتی سرگرمی کے لیے دنیا کے خطرناک ترین علاقوں میں تبدیل کر دیا ہے۔
مرکز نے اپنی دستاویزات کی بنیاد پر بتایا کہ سنہ 2025ء کے آغاز سے اب تک 60 سے زائد صحافی اور میڈیا کارکن شہید ہو چکے ہیں۔ یہ مرحلہ جدید تنازعات میں صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ادوار میں شمار کیا جا رہا ہے جس نے فلسطینی علاقوں میں صحافیوں کے تحفظ اور میڈیا کی آزادی کے حوالے سے عالمی سطح پر شدید تشویش کو جنم دیا ہے۔
میڈیا محاصرہ اور عالمی کوریج پر قدغن
حقوقی مرکز نے پیر کے روز جاری اپنے بیان میں جس کی نقل مرکزاطلاعات فلسطین کو موصول ہوئی واضح کیا کہ قابض اسرائیل سنہ 2023ء کے سات اکتوبر سے غیر ملکی صحافیوں کو آزادانہ طور پر غزہ پٹی میں داخل ہونے سے روکے ہوئے ہے۔ یہ ایک غیر معمولی اقدام ہے جس نے غزہ کو میڈیا کے محاصرے میں دھکیل دیا اور زمینی حقائق کی آزادانہ تصدیق کو تقریباً ناممکن بنا دیا۔
مرکز نے کہا کہ اس پابندی کے باعث معلومات کے ذرائع محدود ہو گئے ہیں اور عالمی میڈیا کی اس صلاحیت کو شدید نقصان پہنچا ہے کہ وہ جاری واقعات کے حوالے سے مختلف زاویوں پر مبنی بیانیے پیش کر سکے اور متعلقہ فریقوں کا احتساب کر سکے کیونکہ براہ راست زمینی کوریج ناپید ہو چکی ہے۔
فلسطینی صحافی خطرے کی زد میں
مرکز کے مطابق سخت پابندیوں کے اس ماحول میں غزہ کے اندر سے خبریں پہنچانے کی بنیادی ذمہ داری فلسطینی صحافیوں پر آن پڑی ہے جس نے انہیں انتہائی خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
بیان میں وضاحت کی گئی کہ یہ صحافی مسلسل بمباری فائرنگ اپنے گھروں اور دفاتر کی تباہی جیسے شدید خطرات کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ ان کے خاندانوں کے افراد بھی انسانی نقصانات سے محفوظ نہیں رہے۔ یہ سب کچھ میڈیا کے کردار کو براہ راست اور بالواسطہ نشانہ بنانے کی ایک منظم پالیسی کا حصہ ہے۔
قانونی خلاف ورزیاں اور احتساب کا فقدان
قانونی پہلو سے مرکز نے زور دیا کہ صحافیوں کو نشانہ بنانا اور میڈیا کی رسائی روکنا بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے بالخصوص جنیوا کنونشنز کی جو غیر جنگجو شہریوں سمیت صحافیوں کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں۔
مرکز نے یہ بھی نشاندہی کی کہ یہ اقدامات شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کی شق 19 کی خلاف ورزی ہیں جو اظہار رائے کی آزادی اور عوام کے معلومات تک رسائی کے حق کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ صحافیوں کے قتل کے واقعات میں آزاد اور شفاف تحقیقات کا فقدان اور ذمہ داران کو جواب دہ نہ ٹھہرانا احتساب کے اصول پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے اور مسلح تنازعات کے دوران صحافیوں کے تحفظ کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں کو کمزور کرتا ہے۔
مرکز کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ پٹی میں جنگ کے آغاز کے بعد شہید ہونے والے صحافیوں کی تعداد گزشتہ دہائیوں میں دیگر تنازعات کے مقابلے میں دنیا میں بلند ترین سطح پر ہے۔
مرکز نے اس بات پر زور دیتے ہوئے اختتام کیا کہ صحافت کی آزادی انسانی حقوق کے تحفظ اور معلومات کے بہاؤ کی بنیادی ستون ہے۔ میڈیا پر قدغن حقائق کو مٹا نہیں سکتی بلکہ اس سے عالمی برادری کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ صحافت کی آزادی کی حمایت کرے اور اقوام کے معلومات تک حق کو یقینی بنائے۔
بیان میں یاد دلایا گیا کہ سنہ 2023ء کے سات اکتوبر سے قابض اسرائیل امریکہ اور یورپ کی حمایت سے غزہ پٹی میں نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے جس میں قتل بھوک تباہی جبری بے دخلی اور گرفتاریاں شامل ہیں۔ یہ سب کچھ عالمی اپیلوں اور عالمی عدالت انصاف کے احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔
اس نسل کشی کے نتیجے میں 242 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے جبکہ 11 ہزار سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں اور قحط نے متعدد شہریوں کی جان لے لی ہے۔ اس کے علاوہ غزہ پٹی کے بیشتر شہر اور علاقے مکمل تباہی کا شکار ہو چکے ہیں۔
